پروہت راج اور لوگل کی مدت ملازمت میں توسیع


ایک طرف طلبہ یکجہتی مارچ ہے اور دوسری طرف لوگل (سومیری زبان میں سپہ سالار کو کہتے ہیں ) کی مدت ملازمت میں توسیع کی خبریں ہیں۔ ایک میں خیر کے اثرات نظر آتے ہیں تو دوسرے میں اللہ خیر ہی کرے کے اثرات۔ طلبہ مارچ اپنے ساتھ نویدِ فکر لایا ہے۔ تو دوسرا اپنے ساتھ محض فکر لایا ہے۔

عدالت عظمی نے ایک بار تراہ نکالنے کے بعد لوگل کی سرکاری زندگی بڑھا دی ہے۔ مدت کل چھ ماہ متعین کی گئی۔ جو کہ مشروط ہے حکومت کی طرف سے قانون سازی کے ساتھ۔ قانون سازی کیسے ہوگی اس کا جواب شیخ رشید دے چکے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ وہ جن کو بات کرنا آتی ہے وہ اپوزیشن سے بات کر لیں گے۔ شیخ صاحب صحیح فرماتے ہیں، مخالفین سے معاملات ہمارے مقتدر ہی طے کیا کرتے ہیں اور یہ ہماری راوایات میں شامل ہے۔ لہذا اس ضمن میں کسی بھی قسم کی خوش فہمی یا غلط فہمی میں مت ہی پڑیو۔ کیونکہ لوگل بہادر خود پرائم منسٹر ہاؤس پہنچے تھے اپنی نیا پار لگوانے۔ لہذا خاطر جمع رکھیے وہ باقی ماندہ چھ ماہ میں قانون سازی کے ایسے ساز بجوائیں گے کہ سازندے کبھی اپنے ہاتھ دیکھیں گے اور کبھی ان کی پھسلن کو۔

ہمارے لیے تو باعث حیرت توسیع کے ضمن میں دی جانے والی دلیل ہے۔ کہتے ہیں کہ علاقائی کشیدہ صورت حال کے پیش نظر مدت ملازمت میں توسیع دی گئی ہے۔ گر یہی وجہ ہے تو پھر بارڈر پر کھڑے فوجیوں کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے کہ جو گزشتہ کئی سالوں سے محاز پر موجود ہیں، آخر ان کی اس تجربے سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جاے؟

خیر اس بابت دلیل، تذلیل، اور تنقید پر مبنی کئی شذرے لکھے جا چکے ہیں۔ لہذا ہمارا بھی ان میں سے ایک سمجھا جاے۔ جس کا واحد مقصد اس بات کو دہرانا ہے کہ جمہوریت اور جمہوریت پسندان کے لیے جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ حکومت اور لوگل دونوں ایک پیج پر نظر آتے ہیں لیکن اس بار ہاتھ کی صفائی ایسی دکھائی جا رہی ہے کہ سب سمجھ میں آنے کے باوجود بہت کچھ اوجھل ہے۔ اور فکر کی بات یہ ہے کہ ایک پیج پر موجود دو فریقین میں سے ایک فریق جلد اسی پیج کے حاشیے میں ہوگا۔

اس صورت حال میں مجھے سبط حسن کی کتاب نوید فکر یاد آتی۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ سات پر فرماتے ہیں کہ پروہت راج میں ریاست کا سربراہ مذہبی پیشوا بھی ہوتا تھا اور نظم و نسق کا سربراہ بھی، مجلس شوریٰ اور مجلس اعلی بھی موجود ہوتی تھی۔ خاصا جمہوری سا نظام دکھائی دیتا ہے مگر ناکام ہوا۔ ناکامی کے اسباب یوں ہیں کہ راجہ کے دہرے فرائض (مذہبی پیشوائیت اور انتظامی) اور محدود جمہوریت کا ریاستی نظام زیادہ دن نہ چل سکا۔ ریاست کی وسعت کے لئے ایک دوسرے پہ بے جا حملوں نے شخصی حکومت کے لئے راہ ہموار کی۔ جنگ کے دنوں میں اختیارات سپہ سالار کو سونپ دیے جاتے تھے۔ جو تمام تر سیاسی طاقت کا مرکز بن جاتا تھا اور جنگ یا ہنگامی حالات کے خاتمے کا اعلان بھی لوگل ہی کرتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ ہنگامی حالات عارضی سے مستقل ہونے لگے۔

اس آگے آپ خود پڑھ لیجیے میرے پر جلتے ہیں۔ اور میں اس اقتباس کو پاکستان پر قیاس کرنا تو دور سوچوں ہی تو اختلاج کی سی کیفیت ہونے لگتی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اسلام آباد پروہت راج کے زیرِ سایا معلوم پڑے، پہلے سے محدود جمہوری بندوبست مزید سکڑتا ہوا محسوس ہو اور جب علاقائی حالات کے پیش نظر لوگل بہادر کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی جائے تو عامی کیا سوچے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).