سوک سینس کہاں سے ملے گی؟


یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے مہذب درجہ رکھنے کے لیے بہت سارے اچھے اچھے معاشی، سماجی، اخلاقی قانون بنائے ہیں پر افسوس کی بات یے ہے کہ یہ صرف یا تو بھاری جلد والی کتابوں میں دکھائی دیتے ہیں اور اسے پڑھتے وقت ہم انڈرلائین کرتے ہیں یا جب مہذب گفتگو چل رہی ہو تو ہمارے پاس حوالہ دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو اندازہ ہو کہ پڑھے لکھے لوگ گفتگو میں شامل ہیں۔

اکثر لوگ اس سوک سینس کے بھی اپنی معنی بتاتے ہیں، گلیوں، روڈوں کو صاف ستھرا رکھنا سوک سینس ہے۔ یہ اس طرح کی بات ہوئی ایک دیہات کے صاحب کو نوکری ملی اور وہ ڈرائیور کے ہمراہ فیلڈ میں صحرا کی طرف نکلے، گاڑی جیسے ہی ٹیلے پر چڑھ رہی تھی کہ بیچ میں بکریاں آ گئی اور گاڑی بہت آہستہ ہوگی، ڈرائیور جو اسٹرنگ کو تیزی سے گھما رہا تھا، ہلکی سی آہ بھری اور کہا سر موشن ہی ٹوٹ گیا۔ صاحب حیران و پریشان ہوگئے اور مایوسی کے عالم میں پوچھا ؛ او اب یہ کتنے کا ملے گا؟ صاحب نے سوچا موشن گاڑی کو کوئی پرزہ ہے جو ٹوٹ گیا ہے۔

اکثر پلازہ کے پارکنگ میں یے لکھا پایا، گاڑیاں نیوٹرل رکھیں نہیں تو ٹائروں سے ہوا نکالی جائے گی۔ پڑوس میں گلیاں تو ویسے ہی اپنی جاگیر ہوتی ہیں، کچرا پھینکنا، موٹر سائیکل یا گاڑی بیچ روڈ پر کھڑی کرنا، بجری، ریتی، اینٹیں بھی روڈ پر رکھنا، پانی ہو یا گیس جو بھی لائین بچھانی ہو روڈ کو بنا کسی سے پوچھے توڑنا، اور تو اور ٹھیلے والا بھی بیچ روڈ پکڑ کر آئے گا جب تک آپ ہارن نہ دیں۔ مزے کی بات ایک ہاسپیٹل میں دیکھی جہاں ہدایت نامے پر لکھا ہوا تھا کہ یہاں تھوک نہ پھینکیں، کسے نہ سب پر نہ کا لفظ مٹایا دیا، اور پھر اس طرح ہوا کہ یہاں تھوک پھینکیں۔

جب بھی کسی کو کال آتی ہے، بجائے یہ پوچھنے کے کہ آپ بزی تو نہیں؟ بات ہو سکتی ہے؟ وہ کہانی سنانا شروع کر دیتا ہے، اگر فون بزی کریں، باربار فون کرتا رہتا ہے۔ بینک میں ایک دن عجیب کہانی ہوئی۔ ایک کسٹمر کو فون کال آئی اور گارڈ نے سختی سے منع کرکے کہا بینک میں اجازت نہیں اور کسٹمر نے فون بند کی۔ دوبارہ کال آئی اور بات کر رہا تھا کہ گارڈ پہنچا اور کہا کہ میں نے آپ کو منع کیا آپ پھر بھی بات کر رہے ہیں تو کسٹمر نے کہا میں فون اٹینڈ کر کے ان کو کہہ رہا تھا کہ فون نہ کرو۔ میں بینک میں ہوں۔

آپ نے تقریباً ہر جگہ روڈ پر دیکھا ہوگا کہ موٹر سائیکل پر بندہ ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل چلاتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے فون پر بات ہو رہی ہے۔ گھر یا آفس میں کافی لوگ تو فون چارج پر اور بات کر رہے ہوتے ہیں۔ میٹنگز میں تو تقریباً سارے لوگ موبائیل تب چھوڑتے ہیں جب بولنے کو کہا جائے ویسے تو میسیجز پر رواں دواں رہتے ہیں۔ اور بیچ میں پھر فوٹوز اور سیلفیوں کی چاٹ اور حلوہ شروع ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب موبائل سروس عام ہوئی اور نوکیا کمپنی کا موبائیل ہوتا تھا کسے کے گھر یا آفیس پہنچتے ہی حال احوال سے پہلے چارجر مانگنا شروع کرتے تھے۔

پر تو اب یے عام ہے کسی بھی دعوت۔ انٹرویو، یا کسی سے ملنے جانا ہو تو انتظار کے وقت موبائیل کا سیلفی موڈ آئینے کا زبردست کام دیتا ہے۔ اک موبائیل بچارے سے آخر کون کون سے کام لو گے۔ ہمارے ایک رشتے دار کسی کمپنی میں کام کرتے تھے ایک دن اک ٹوتھ پیسٹ لے کے آئے اور فرمایا کہ اس کے کئی فائدے ہیں، ایک تو دانتوں کی چمک بڑھاتی ہے، دوسرا گر آنکھوں میں درد ہے تو لگا لیں درد ختم، پٹھوں میں درد ہو تو مالش کریں، کسی برتن کو اس سے صاف کر سکتے ہیں، زخم پر دو مرتبہ لگانے سے وہ ایک دم سیٹ ہو جاتا ہے، بس موبائیل کا بھی ہم نے یہی حال کیا ہے۔

سوک سینس کی کہانی بھی عجیب ہے جب گھر میں ہم ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے یہ سینس ہم باہر کہیں چھوڑ آئے ہیں اور جب باہر جاتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے یے کہیں ہم گھر چھوڑ آئے ہیں۔ جس طرح موٹر سائیکل میں پیٹرول نہ ہو اور گرا کے ہم پیٹرول پمپ تک لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں باقی باتوں مین بھی ہمارا حال کچھ اسی طرح کا ہے۔ ریموٹ میں بیٹری گر ختم ہو جائے، باہر نکال کے صاف کر کے کچھ دن ہم چلا لیتے ہیں، بوٹوں کی پالش اگر نہ ہو تو بنیان اچھا کام دیتی ہے۔

دودھ میں پانی کی ملاوٹ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ پوری میتھس ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ گر دو بندوں کے لئے کچھ ہو اور پانچ بندوں میں کیسے تقسیم کریں۔ جب موبائیل کلچر اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا اور بس میں سفر کرتے وقت اگر کوئی اخبار لیتا تھا تو برابر میں بیٹھا ہوا بندہ اس طرح اسے آھستہ آھستہ نظر سے دیکھتا تھا کہ مجبوراً اس بندے کو اخبار کا کوئی پیج دینا پڑتا تھا۔

گاڑی پیچھے سے ریورس کریں، ٹھنڈی کولڈ ڈرنک ہے؟ آپ کے پاس کون سے شوز بوٹ ہیں؟ چار بج کر چالیس منٹ والی گاڑی کس ٹائم جاتی ہے؟ برف میں سوراخ نہیں پھر پانی کیسے لیک ہو رہا ہے؟ یہ ڈاکٹر بچوں کے چائلڈ اسپیلشسٹ ہیں ایسی بہت ساری باتیں ہم نے بس جگاڑ ٹیکنالوجی کا حصا بنا دی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے نہ صرف اس طرح کی باتوں کی حد تک بلکہ سوک سینس کے مکمل پہلوؤں کو ہم نے مزاق بنا دیا ہے۔ آپ گر اپنے روز کو روٹین کو دیکھہں تو چٹنی اور چاٹ بہت جگہ پاہیں گے، پری ڈجیٹل ایج میں تو ہم کافی مہذب تھے لیکن پوسٹ ڈجیٹل نے تو بیڑا غرق کر دیا ہے۔

یہ تو وہ بات ہوئی کہ ہم وہاں ہیں جہاں ہم کو ہماری خبر نہیں۔ ہر جگہ پر چاھے وہ گھر ہو، دفتر ہو، پارٹی ہو یا اور کوئی بھی پروگرام ہو ہمارا رونا اسی بات پر ہوتا ہے لوگ ہمیں نہیں سمجھتے۔ سچی بات تو یے کہ ہم خود کو بھی نہیں آج تک سمجھ پائے ہیں کہ آخر ہم کون سی مخلوق ہیں۔ محفل میں گر بولنا شروع کرتے ہیں تو اس کے سب آداب بھول جاتے ہیں۔ بات کا موٖضوع کے ساتھ کوئی لنک ہو یو نہ ہو پر ہم جھاڑتے جاتے ہیں، ہم ہو موضوع پر خود کو فٹ سمجھتے ہیں یے ہمارا قصور تھوڑی ہے ڈجیٹل میڈیا نے ہی ہمیں تجزیہ نگار بنایا ہے اور ہم سمجھتے ہیں زیادہ بات کرنا ہی پڑھے لکھے ہونے کی نشانی ہیں۔

کوئی کسی بھی فیلڈ کا پوچھے نا کہنا ہمارے لئے شرمندگی لگتی ہے سو ہم ایکسپرٹ اوپینین دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک پروفیسر صاحب نے کلاس میں بچوں سے پوچھا ؛ ایک جہاز کے رفتار ایک گھنٹے میں ہزار کلومیٹر ہے تو میری عمر کتنی ہے؟ بچے پریشان ہوگئے کہ کون سا فارمولا لگائیں۔ ایک بچے نے ہمت کرکے بتایا سر آپ کی عمر 70 سال ہے۔ پروفیسر صاحب بہت غصہ ہوئے کہا تمہیں شرم آنے چاہیے میں تمہیں بوڑھا لگتا ہوں۔ تو ایک بچے نے محصومیت سے کہا سر 20 سال، اس پر بھی پروفیسر صاحب تپ گئے اور کہا کیا میں تمہیں ابھی تک دودھ پیتا بچہ لگتا ہوں۔

ایک بچہ جو شکل سے ہی سائنسدان لگ رہا تھا بولا سر آپ کی عمر 44 سال ہے۔ پروفیسر صاحب بڑے خوش ہوئے اور کہا تم نے بالکل صحیح فرمایا پر یے بتایا کیا فارمولا لگایا۔ بچہ مسکرانے لگا اور کہا سر، میرا بھائی کا یک دوست ہے اور اک کی عمر 22 سال ہے اور آدھا پاگل ہے۔ تو ہم بھی پروفیسر کی طرح بن گئے ہیں۔ چائے سے لے کر چاول تک، سیاست، سائنس، صحافت ہر ٹاپک پر ہم ڈبیٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں، دوسروں کے فرائض یاد دلانے میں اول اور اپنی جوابداریاں نبھانے میں آخر۔

آرٹیکل پڑھنے کے بعد ایسا نہ ہو آپ مارکیٹ کے اچھے اور بڑے دکانوں میں سوک سینس ڈھونڈنے نکل جائیں، نہ ملنے پر بڑے شہروں کا رخ کریں۔ صاحب اتنا دور جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے اپنے روز کے روٹین کو دیکھیں، اپنے مزاج اور رویے کو دیکھیں ہر طرف جھلک نظر آئے گی بس اسے ٹھیک کردیں یے اور کہیں نہیں اپنے اندر ہی ملے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).