ایٹمی قوت جو بھیک مانگ کر گزارا کرتی ہے


ہفتہ رفتہ میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع پر جو ہنگامہ برپا ہواس سے ملک کی جگ ہنسائی خوب ہوئی۔ شکرہے کہ عدالت عظمیٰ نے اسے خوش اسلوبی سے حل کردیا ورنہ ناجانے آج کیا منظرنامہ ہوتا ۔ پاکستان کے شہری اس طرح کے ہنگاموں کے عادی ہیں لیکن دنیا یہ تماشا دیکھ کرگھبراجاتی ہے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان چار برس دوماہ تک وزیراعظم رہے۔ ان کی شہادت کے بعد سات برسوں میں چھ وزراعظم تبدیل ہوئے۔جنر ل محمد ایواب خان نے اقتدارپر شب خون مارا اور دس برس تک بلا شرکت غیرے حکمرانی کا ڈنکا بجایا۔

نوے کی دہائی میں بھی پیپلزپارٹی بمقابلہ مسلم لیگ اقتدار پر قابض ہونے کا کھیل جاری رہا۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ اس دوران سیاست پر اہل ثروت نے قبضہ جمالیا۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے الیکشن لڑنے کی بنیادی شرط مالی حیثیت ٹھہری نہ کہ سیاسی اور سماجی خدمات یا جماعت کے لیے خدمات۔ سیاسی جماعتیں بتدریج ختم ہوتی گئیں او رچند خاندان ان پر قابض ہوگئے۔ کوئی جمہوریت کا علمبردار بن گیاتو کوئی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا لیکن یہ سب ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔ بدقسمتی سے حکمرانوں سیاسی جماعتوں اور ملکی اداروں کے مابین مفاہمت اور یکجہتی کے بجائے باہمی بے اعتمادی اور چپقلش نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کیں۔چنانچہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکا نہ قرارآسکا۔حکومت اور ادارے ساری توانائی ایک دوسرے کو گرانے اور کمزور کرنے میں صرف کرتے رہے ۔

ایسا لگتاہے کہ عدم استحکام ملک کے ڈی این اے میں شامل ہوچکا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کو قومی اداروں کا تعاون حاصل ہوا تو ریاست نے سکون کی ایک کروٹ لی۔ درپیش داخلی اور خارجی چیلنجز سے نبردآزماہونے کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کی۔ ٹیکس نیٹ میں قابل قدر اضافہ کیا گیا۔امریکہ کے ساتھ تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری اگرچہ سرگرم جوشی میں نہ بدل سکی لیکن کم ازکم کشیدگی اورتنائوتمام ہوا۔

حکومت پاکستان نے افغانستان میں برسوں سے متحارب طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کرانے میں کردار ادا کیا ۔ مغربی ممالک نے پاکستان کے افغانستان میں کردار کو سراہا اور اس کے جائز مفادات کو بھی تسلیم کیا۔ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی پاکستان کے سر پر لٹکتی تلوار سے نجات کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے۔ داخلی سطح پر شدت پسند گروہوں کو لگام دی گئی۔ یہ وزیراعظم عمران خان ہی تھے جنہوں نے لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی منتظر تنظیمات کو پیغام دیا کہ ایسے اقدامات کشمیر کاز اور پاکستان کے مفادات کے مغائر ہیں۔اس بیان کا خیر مقدم دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں کیا گیا کیونکہ دنیاکا پاکستان سے بنیادی مطالبہ ہی یہ تھا کہ وہ شدت پسند تنظیموں پر قابو پائے۔

جیش محمد اور لشکر طیبہ کے نام سے ملک میں اب کوئی قابل ذکر سرگرمی نظر نہیں آتی۔ ان کے لیڈر جو کل تک سرشام ٹی وی چینلز پر دندناتے تھے اب پس منظر میں جاچکے ہیں۔کراچی جو فرقہ پرستوں اور لسانی گروہوں کا مرکز تھا اب امن کا گہوراہ تو نہیں لیکن کم ازکم بھوت بنگلہ کا منظر بھی پیش نہیں کرتا۔الطاف حسین کی فریسٹریشن کا یہ عالم ہے کہ وہ بھارت میں سیاسی پناہ لینے پر تلے ہوئے ہیں۔خس کم جہاں پاک۔ فرقہ پرست گروہ جو ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرتے تھے اب خاموش ہی نہیں بلکہ اتحاد بین المسلمین کا درس دیتے ہیں۔

مدارس کی سینئر لیڈرشپ کے ساتھ مسلسل مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں ضمانت دی کہ مدارس کے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہیںکی جائے گی لیکن انہیں اپنے نصاب میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا ہوں گی ۔حساب، انگریزی اور سائنس جیسے مضامین کو بھی نصاب کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ معاشرے میں زیادہ وسیع اور سرگرم کردار ادا کرسکیں۔ جنگیں مسائل اور تنازعات کا حل نہیں بلکہ قوموں کو ایسی دلدل میں پھنسا دیتی ہیں جن سے عشروں تک باہر نکلنا مشکل ہوتاہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت اپنی پالیسیوں کی بدولت اپنے ملک کو ٹائی ٹینک پر سوار کراچکی ہے جس کا انجام نوشتہ دیوار ہے۔

پاکستان کی طرف سے کشمیر پر سیاسی اور سفارتی کوششوں پر انحصار کے ثمرات اب سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ دنیا کے ہر دارالحکومت میں کشمیر اب موضوع بحث ہے۔ کل ہی کی بات ہے کہ سویڈن کی حکومت نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں عائد تمام پابندیاں اٹھائے اور کشمیریوں کی شرکت سے مسئلہ حل کرے۔ چین کے ساتھ تعلقات میں وسعت آئی ہے۔چین اب انسانی وسائل کی ترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے منصوبو ں میں بھی سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہے جو براہ راست عام لوگوں کی زندگی میں سدھار لانے کے لیے ضروری ہے۔

حکومت اور اداروں کے ایک صفحے پر ہونے کے جو ثمرات رفتہ رفتہ متشکل ہورہے ہیں وہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو گوار ا نہیں ۔ گزشتہ تیس برسوں میں انہوں نے برسراقتدارآکر مگرمچھ کے ٹسوئے بہائے اور بہانہ کیا کہ ان کے پاس آلہ دین کا چراغ نہیں کہ راتوں رات مسائل حل کرسکیں۔

سندھ میں پیپلزپارٹی اب مسلسل تیرہ برسوں سے حکمران ہے لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔ حکومت کراچی کا کچرا تک صاف نہیں کراسکی۔ ایڈز جیسی مہلک بیماری نے سندھ کے اندر ڈیرے جمالیے ہیں۔ آج بھی تھر میں بچے بھوک اور افلاس سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ شہباز شریف کے پیرس لاہور میں سانس لینا محال ہے۔ کوئی بھی ملک ہو یا معاشرہ جو دیمک زدہ ہو۔ جو اندر سے کھوکھلا ہوچکا ۔ہے اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا جوئے شیر لانے کے متراف ہے۔

پاکستان کا وجود کھوکھلا کردیاگیا۔عالم یہ ہے کہ عظیم الشان ملک جو ایٹمی قوت بھی ہے دنیا سے بھیک مانگ کر گزارہ کرتاہے۔ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں نہ کہ ایک دوسرے کو ناکام کرنے کے درپے۔حزب اختلاف کو لہو گرم رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے۔ وہ باز آنے والی نہیں لیکن شہریوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ اگر آج نوازشریف یا بلاول بھٹو بھی اقتدار پر فائز ہوجائیں تو وہ دودھ وشہد کی نہریں نہیں بہا سکیں گے بلکہ حالات مزیددگرگوں ہوجائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood