تقرریاں، تبادلے اور حکومت!


وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں عندیہ دیا تھا کہ پنجاب میں بہتر گورننس کے لئے تقرریاں اور تبادلے عمل میں لائے جائیں گے اور حکومت نے وفاق اور صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر بیورو کریٹس کے تبادلے اور تقرریاں کیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے تقریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ ہو چکا لیکن حکومت تا حال اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ناقدین کی سخت تنقید کے نشانے پر ہے۔ صوبہ پنجاب کو ہمیشہ مضبوط وفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے وزیراعظم عمران خان نے بارہ کروڑ نفوس پر مشتمل صوبہ پنجاب کا زمام اقتدار یقیننا گڈ گورننس کے لئے عثمان بزدار کو سونپا لیکن جب سے صوبہ پنجاب میں عثمان بزدار نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے حزب اختلاف اور حکومت کے ناقدیں نے وزیر اعظم کے اس فیصلہ کو پنجاب کی لنکا ڈبو دینے کے مترادف قرار دیا لیکن اس کے بر عکس وزیر اعظم عمران خان نے نہ صرف وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا دفاع کیا بلکہ ان کی کارکردگی پر اپنے اعتماد کی مہر ثبت کی۔

تحریک انصاف کی حکومت تبدیلی کے بلند آہنگ نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ابھی تک تجربات کی مینا کاری میں مصروف عمل ہے گو حکومت کی نیک نیتی میں دور دور تک شک کی گنجائش نہ ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عوام کے مسائل کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکا جس کے باعث حزب اختلاف پوری طاقت کے ساتھ مہلک مسائل کے رستے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے حکومت کے لئے مشکلات کے پہاڑ چن رہی ہے جن کو سر کرنا موجودہ حکومت کے لئے صبر آزما اور تکلیف دہ چیلنج بن چکا ہے۔

حکومتی وزیر فیاض الحسن چوہان کا یہ کہنا کہ انتظامی اکھاڑ پچھاڑ معمول کی بات ہے اور شہباز شریف بھی اپنے دور میں تبادے اور تقرریاں کرتے رہے ہیں اس سے اخذ کرنا مشکل نہیں کہ یہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی روایت کو تقویت دے رہی ہے اور یہ سمجھنے میں دشواری نہیں کہ ایسے اقدامات کی بدولت کوئی تبدیلی کا سونامی نہیں آنے والا نہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت نے سو کے قریب بیورو کریٹس کی تبدیلی کے باوجود بھی گڈ گورننس کے زینہ پر قدم نہیں رکھا تو پھر اپنے کیا دھرا بیورو کریسی کے پلڑے میں نہ ڈالے۔

حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ وزیر اعلی ڈیڑھ سالہ حکومتی دورانیے میں تین چیف سیکرٹریز اور پانچ آئی جیز کو تبدیل کر چکے ہیں اگر تقرریوں اور تبادلوں کی اتنی ایکسر سائز کے باوجود پنجاب حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بنا پا رہی تو پھر پنجاب کی کابینہ میں ایسے چہرے تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے جو اپنی ناکامیوں اور نا اہلیوں کا ملبہ بیورو کریسی پر ڈال کر بری الذمہ ہو کر پاکدامنی کے پلڑے میں تلنا چاہتے ہیں فیصلہ سازوں کو علم ہونا چاہیے کہ اگر تقرریوں اور تبادلوں کے باوجود بھی کارکردگی تبدیلی میں نہیں ڈھلتی تو ایسے محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لے جو بیورو کریسی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں تنقید یا الزام تراشی کی روش کو ترک کرتے ہوئے وجوہات تلاش کرنی چاہیے ے یاد رکھیں جب کمزور سوچ کے ساتھ فیصلے کیے جائیں گے تو پھر انتظامی طور پر حکومت نہیں چل سکتی جس کا نقصان حکومت کو بلکہ تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو بھی ہو گا۔

حکومت کو اس مخمصے سے نکلنا ہو گا کہ بیورو کریسی کی وفاداریاں مسلم لیگ ن کے ساتھ وابستہ ہیں سرکار کا ملازم اپنے محکمہ میں ہمیشہ ترقی کا خواہاں ہوتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے حکومت کو چاہیے کہ مضبوظ سوچ کے ساتھ بڑے فیصلے کرے اگر اسی طرح وجوہات تلاش کیے بغیر بیورو کریسی میں تقرریوں اور تبادلوں کا عمل جاری رہا تو حکومت کی کارکردگی کو ایسے محرکات مزید متاثر کریں گے حکومت کے ایسے اقدامات کا فائدہ براہ راست حزب اختلاف کو ہو گا کیونکہ حکومت نے الیکشن سے قبل عوام کے ساتھ عملی دعوؤں کا وعدہ کیا تھا اور حکومت میں آنے کے بعد ماڈرن ریاست مدینہ بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

حکومت کی جانب سے انتظامی مشینری میں تبدیلیاں لانے کا مقصد اس کی فعالیت کو تقویت دینا ہے لیکن صرف تقرر و تبادلوں کے ساتھ ساتھ مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے حکومت میں شامل وزراء کی کارکردگی کو یقینی بناتے ہوئے اس بات کو بھی عملی شکل دینی چاہیے کہ وزراء بیورو کریسی کو چلانے میں ممدومعاون ثابت ہوں جو وزراء صرف ہاتھوں پر ہاتھ دھرے روایتی طرز وزارت سے شاہانہ زندگی کے مزے لے رہے ہیں ان کی طنابیں کسنے کی بھی ضرورت ہے میرا مقصد بیورو کریسی کو فرشتوں کی صف میں لا کھڑا کرنا ہر گز مقصود نہیں لیکن بار بار تبدیلیوں کے ساتھ وجوہات کو بھی دور کرنے کی عملی کوشش نظر آنی چاہیے۔

حکومت نے عوام کے ساتھ بہت سے وعدے کیے اور ان کی آنکھوں میں مدینہ کی فلاحی ریاست کی طرز حکومت کے خواب چنے ہیں یہ درست ہے کہ حکومت نے ملک و ملت کو دیمک کی طرح چمٹے بڑے بڑے سیاستدانوں اور بیورو کریٹس پر ہاتھ ڈال کر بے رحم احتساب کیا جو آج بھی جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کے ساتھ کیے وعدوں کی پاسداری کے فرائض بھی اسی حکومت کے سر قرض ہیں۔ ملکی معشیت کو ٹھیک کرنا حکومت کے لئے ایک چیلنج ہے اگر حکومت معشیت کو ٹھیک کر پاتی ہے تو ملک میں جو مہنگائی کا طوفان سر اٹھا چکا ہے اس میں جہاں یقیننا کمی واقع ہو گی وہیں بے روزگاری کی شرح بھی کم ہو گی۔

ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اب مزید حکومت کے پاس تجربات کا وقت نہیں کیونکہ اب جہاں حزب اختلاف اور حکومت کے ناقدیں حکومتی کارکردگی پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں حکومت کو چاہیے کہ ایسے سوراخوں کو بند کرنے کی کوشش کی جائے جہاں سے وہ اپوزیشن اور ناقدیں کے نشتروں کا نشانہ بن رہی ہے۔ فواد چوہدری جو ایک کروڑ نوکریوں کے حکومتی وعدے کو گول کر گئے کیا یہ بیان لاکھوں بے روزگار نوجوانوں اور اہل افراد کے لئے تسلی کا باعث ہے اب وقت آگیا ہے کہ خواہ مخواہ کے وزراء جو چرب زبانی کی وجہ سے حکومتی گرہ سے بندھے ہیں انہیں آزاد کر دیا جائے کیونکہ اب بہتر گورننس کے بغیر عوام کسی بہلاوے میں آنے والی نہیں پچاس لاکھ گھر ، ایک کروڑ نوکریاں اور دیگر کیے گئے وعدوں کو عملی شکل دینے کے لئے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے حکومت کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت کے مترادف صرف ساڑھے تین سال کا عرصہ بچا ہے۔ اگر اسی طرح اس وقت کو بھی تجربات کی نذر کیا گیا اور ملک و ملت ان تجربات کے ثمرات سے بے فیض رہی تو سات دہائیوں کی تاریخ رقم کرنے والا مؤرخ اپنی سفاک قلم تھامے وقت کے ہاتھوں لکھے فیصلے کے انتظار میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).