ڈان کے دفتر کا گھیراؤ کرنے والے فسادی عناصر اور حکومت کی خاموشی


اسلام آباد میں روزنامہ ڈان کے دفتر کا گھیراؤ اور اس کے ملازمین کو ہراساں کرنے کی کوشش ایک افسوسناک واقعہ ہے جس کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔ اگرچہ اپوزیشن اور صحافی لیڈروں کی طرف سے اس واقعہ کو مسترد کرتے ہوئے مظاہرین کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن حکومت کی اس سانحہ پر خاموشی افسوسناک ہے اور ملک میں آزادی رائے کے حوالے سے ایک تکلیف دہ صورت حال کی نشاندہی کرتی ہے۔

یہ واقعہ تین حوالوں سے قابل غور ہے۔ اول تو یہ احتجاج لندن میں ہونے والے دہشت گردی کے ایک واقعہ اور اس میں ملوث ایک شخص کی شناخت کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے اور کامیابی سے جیتنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس لئے جاننا چاہیے کہ اس ملک میں ایسے کون سے عناصر ہیں جو دوسرے ملکوں میں معصوم شہریوں پر حملہ کرنے والے لوگوں کی حمایت میں سرگرم ہیں اور ان کی شناخت عام ہونے پر احتجاج کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس قسم کی کارروائیوں میں 70 سے 80 ہزار افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کو پاک فوج نے بے شمار قربانیوں کے بعد آپریشن ضرب العضب اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے ختم کیا ہے۔

خبر کے مطابق مظاہرین اس بات پر احتجاج کررہے تھے کہ اخبار نے اس شخص کی پاکستانی شناخت کیوں ظاہر کی۔ یہ حیرت انگیز مؤقف ہے کیوں کہ دنیا بھر میں دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کا نام گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سر فہرست رہا ہے۔ حتی ٰ کہ مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والی داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے ڈانڈے بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی تربیت گاہوں سے جا ملتے ہیں۔ یہ صورت حال اہل پاکستان اور دنیا کے مختلف ملکوں میں آباد پاکستانی نژاد تارکین وطن کے لئے شرمندگی اور پریشانی کا سبب رہی ہے۔

پاکستانی عوام، حکام اور افواج کی طرح تارکین وطن بھی پاکستان کے نام پر لگنے والے اس دھبہ کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہنچنے والے سفارتی اور معاشی نقصان کا خمیازہ پاکستان کے غریب عوام کو ابتر مالی حالات اور ناکام سفارت کاری کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی تارکین وطن ایسے مفسد عناصر کی وجہ سے ’مشتبہ‘ سمجھے جاتے رہے ہیں۔

یہ صورت حال کسی دہشت گرد کا نام چھپانے یا اس کی شناخت پر پردہ ڈالنے سے تبدیل نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کے لئے ایسے عناصر کی نشاندہی کی ضرورت ہے تاکہ ان کی سرپرستی کرنے والے ان عناصر تک پہنچا جاسکے جنہوں نے مذہب کے نام پر پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ بنا کر دنیابھر میں پاکستان اور اس کے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ 29 نومبر کو عثمان خان نامی ایک 28 سالہ نوجوان نے لندن برج کے علاقے میں چاقو سے وار کرکے دو نوجوانوں کو ہلاک کردیا تھا۔ یہ دہشت گرد خود بھی پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔ یہ شخص 2012 میں لندن ہی میں دہشت گردی کے ایک منصوبہ میں ملوث ہونے کے الزام میں قید رہا تھا۔ وہ حال ہی میں جیل سے پروبیشن پر رہا ہؤا تھا۔

اسلام آباد میں بعض عناصر نے اس دہشت گرد کی حمایت میں یا یہ خبر سامنے لانے پر کہ اس کا تعلق پاکستان سے تھا، روزنامہ ڈان کے خلاف مظاہرہ کیا، دفتر میں ملازمین کو یرغمال بنائے رکھا اور حکام کی مداخلت پر گھیراؤ ختم کرنے سے پہلے اخبار کی انتظامیہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ ان مظاہرین نے جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ جمہوری معاشرے میں مکالمہ اور رائے کے اظہار کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہے۔ اسی قسم کا تشدد پسندانہ رویہ دراصل دہشت گردی میں ملوث عناصر کو طاقت مہیا کرتا ہے۔ یہی مزاج نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور خود کش بمبار بننے یا دھماکے کرکے معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کے لئے تیار کرتا ہے۔

کسی بھی گروہ کا یہ دعویٰ قبول نہیں کیا جاسکتا کہ کسی دہشت گرد کی اصلیت سامنے لانے سے ملک کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے یا عزت و وقار خاک میں ملتا ہے۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی، دہشت گرد عناصر کی بیخ کنی کے لئے لازمی ہے۔ اس لئے تفصیلات جانے بغیر بھی یہ کہنا ضروری ہے کہ پاکستان کی شہرت کی حفاظت کے نام پر میڈیا کو نشانہ بنانے والے عناصر دراصل اسی مزاج کا مظاہرہ کرتے ہیں جو اختلاف کی وجہ سے مخالفین یا معصوم شہریوں کو ہلاک کرنا درست سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس انتہا پسندانہ نقطہ نظر کی بیخ کنی کے لئے مناسب اور فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے جاسکے۔

گزشتہ حکومت کے دور میں ایک بیس نکاتی قومی ایکشن پلان ضرور ترتیب دیا گیاتھا لیکن اس پر نہ تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت عمل درآمد کرسکی اور نہ ہی تحریک انصاف کی حکومت نے اس معاملہ پر پیش رفت کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ سابقہ حکومت کے خلاف ادارہ جاتی سازشوں نے اسے اہداف حاصل کرنے سے روکے رکھا اور موجودہ حکومت اگرچہ تمام اداروں کی چہیتی کہلاتی ہے لیکن اس کا بنیادی ہدف سابقہ حکمرانوں کو کیفر کردار تک پہنچانا اور ہر ناکامی کے لئے انہیں مطعون کرنا ہے۔ انتہائی مشکل معاشی، خارجہ اور سیکورٹی چیلنجز کے باوجود موجودہ حکومت اس ایک نکاتی ایجنڈے کی بنیاد پر معاشرے میں نفرت اور انتشار کو بھڑکانے میں مصروف رہی ہے۔

اسلام آباد میں اخبار کے دفتر پر حملہ کا دوسرا پہلو آزادی رائے اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔ ملک کے اہم اور مقتدر میڈیا ہاؤس کو نشانہ بنایا گیا لیکن مقامی انتظامیہ تین گھنٹے تاخیر سے وہاں پہنچی۔ ایسی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی کہ پولیس نے اس غیر قانونی حرکت میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہو اور عوام کو یہ بتانے کی زحمت کی گئی ہو کہ یہ کون لوگ تھے جو ایک خبر کی اشاعت پر اخبار پر دھاوا بولنے کا حوصلہ کرلیتے ہیں۔ ان کی سرپرستی کون سے لوگ کررہے تھے؟ پہلے سے انتشار اور بے چینی کاشکار معاشرے میں اس قسم کے واقعات خوف اور سراسیمگی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔

ہر معمولی بات پر بلند بانگ دعوے کرنے اور بات کا بتنگڑ بنانے والے سرکاری نمائندے اور حکمران جماعت کے ترجمان بھی اس واقعہ پر پراسرار انداز میں خاموش رہے۔ حالانکہ ایک جمہوری حکومت کو فوری طور سے اس غنڈہ گردی اور سماج دشمن سرگرمی کا نوٹس لیتے ہوئے روزنامہ ڈان سے معافی مانگنی چاہیے تھی اور ملک بھر کے صحافیوں کو یقین دلانا چاہیے تھا کہ آزادی صحافت پر حملہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ لیکن موجودہ صورت حال سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت میڈیاکے خلاف فسادی عناصر کی غنڈہ گردی کو یہ سوچ کر تسلیم کررہی ہے کہ اس طرح میڈیا کو خوف زدہ کیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ چند برس کے دوران پاکستان میں آزادی رائے کے خلاف سنگین کارروائیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ گو کہ ملک میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے جس کے وزیر اعظم اور نمائندے میڈیا کی آزادی کے دعوے کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے لیکن یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اختلافی رائے اور خبر کو روکنے کا ہر ممکن اہتمام کرنا ہی موجودہ حکومت کی میڈیا پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔ اس مقصد کے لئے وزارت اطلاعات کے وسائل کو بروئے کار لانے کے علاوہ پیمرا جیسے ادارے کو میڈیا کو خاموش کروانے اور میڈیا مالکان کو سرکاری پالیسی کا ہمنوا بنانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔

اختلافی رائے لانے والے پریشر گروپ خواہ پشتون تحفظ موومنٹ کی صورت میں سامنے آئیں، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے دھرنے کی صورت میں اس کا مظاہرہ ہو یا طلبہ یک جہتی مارچ کی شکل میں اظہار کی آزادی کا حق مانگا جائے۔ حکومت ہر صورت ایسی آوازوں کو دبانے اور ان کی تشہیر روکنے کا اہتمام کرتی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر سرگرم عناصر کے خلاف سائیبر کرائمز یا دوسرے ملکی قوانین کو استعمال کرتے ہوئے خوف کی فضا پیدا کی گئی ہے۔

البتہ اس واقعہ کے حوالے سے اہم ترین پہلو ملک کی شہرت کا معاملہ ہے۔ ڈان پر حملہ کرنے والوں کا خیال تھا کہ لندن میں حملہ کرنے والے دہشت گرد کی پاکستانی شناخت ظاہر کرکے ملکی وقار پر حملہ کیا گیا ہے حالانکہ ملک میں آزادی رائے کا گلا گھونٹ کر دنیا بھر میں پاکستان کی شہرت کو شدید نقصان پہنچانے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ بھارت کی طرف سے مسلسل پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام عائد ہوتا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مودی حکومت اس عذر کو بھارت میں ہندو انتہا پسندانہ ایجنڈے کی تکمیل کے لئے استعمال کرتی ہے لیکن اسی تصویر کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت کی طرف سے دنیا کے کسی بھی فورم پر جب یہ بات کی جاتی ہے تو اسے غور سے سنا جاتا ہے۔ امریکہ سرکاری طور پر پاکستان کے خلاف بھارتی حکومت کے الزامات کی تائید کرتا ہے اور افغانستان کے حکمران بھی اسی رائے کو سامنے لانے میں سرگرم رہتے ہیں۔

اس صورت حال میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنا مؤقف سامنے لانے اور بھارتی پروپیگنڈا کا جواب دینے کے لئے ملک میں شہری آزادیوں کو یقینی بنانا چاہیے اور سماج دشمن عناصرسے نمٹنے اور قومی مؤقف سامنے لانے کے لئے میڈیا کو خود مختار اور طاقتور بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس اگر فسادی عناصر میڈیا کو کھلے عام ہراساں کریں گے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہے گی تو پاکستان کی شہرت بھی داغدار ہوگی اور دشمن عناصر بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali