گھٹن زدہ ماحول اور طلباء


ایک ایسا معاشرہ جو فکری، سماجی اور سیاسی طور پر ایک گھٹن زدہ ماحول میں سانسیں لے رہا ہو، وہاں پر عزم و توانا آوازیں شاذ ہی ابھرتی ہیں اور اگر ابھریں بھی تو اکثر اوقاتِ جبر کے ہتھکنڈوں سے انہیں دبا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک گھٹن زدہ ماحول کے سارے خدو خال پائے جاتے ہیں۔ فکری، سماجی، ثقافتی اور سیاسی گھٹن کے ماحول میں جینے والے اس معاشرے میں جب کہیں سے کوئی توانا اور پر عزم آواز ابھرے تو اس کی گونج پورے ملک میں سنائی دیتی ہے۔

اس لیے جب فیض میلے میں چند درجن طلباء نے سرخ انقلابی نظریات کا نقارہ بجایا تو اس کی گونج سے پورے ملک میں ارتعاش دوڑ گیا۔ 29 نومبر کو طلبہ یک جہتی مارچ کے ذریعے طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ ایک صائب اور جائز مطالبہ ہے کہ طلباء کو یونین سازی کے حق سے محروم کرنا ایک غیر جمہوری عمل ہے جس کا نفاذ جنرل ضیاء الحق کی آمریت میں ہوا اور بدقسمتی سے اج تک تمام جمہوری حکومتوں میں بھی یہ نافذ العمل رہا۔ طلبہ مارچ میں یونین سازی کا مطالبہ تو قابل فہم ہے لیکن اس مارچ میں سرخ نظریات کا پرچار ایک ایسا عمل ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں۔

سرخ نظریات اس اشتراکی نظام سے وابستہ ہیں جو سابقہ سوویت یونین میں ایک شدت کے ساتھ وارد ہوئے جس میں جبر و قہر کے گہرے رنگ نمایاں تھے۔ یہ سرخ انقلاب گزشتہ صدی کی 80 کی دہائی میں اس وقت اپنی موت آپ مر گیا جب سوویت اشتراکی نظام زمین بوس ہو گیا۔ اج طلباء جن سرخ نظریات کو سینے سے لگائے سڑکوں پر مارچ کر رہے ہیں وہ تو مردہ نظریات ہیں جن کا پرچار ایک سعی لاحاصل ہے۔ تاہم ان طلباء کی جانب سے بھرپور اور توانا آواز بلند کرنا ایک نیک شگون ہے اور اس حقیقت کا غماز بھی ہے کہ آج کا نوجوان طبقہ شدید اضطراب میں مبتلا ہے۔

یہ اضطراب فقط نوجوانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے طبقات میں بھی بہت گہری میں جاگزیں ہے۔ پاکستان ایسے معاشرے میں بدقسمتی سے فکر و سوچ پر روز اول سے پہرے رہے ہیں۔ ہر اس سوچ کو ذہنوں سے کھرچنے کی کوشش کی گئی ہے جو ریاست کی جانب سے تشکیل دیے گئے بیانیے سے متصادم ہوتی ہو۔ نظریات کا پرچار اس معاشرے کی ہمیشہ سے ایک پرخطر مہم جوئی رہی ہے کہ جس میں نام نہاد محبان وطن کے ہاتھوں عزت گنوانے کے ساتھ زندگی کھونے کا دھڑکا بھی ہمیشہ لگا رہتا ہے۔ ماضی میں ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں کہ جب فقط ایک الگ اور آزاد فکر کی پاداش میں بہت سے سارے راندہ درگاہ ٹھہرے تو بہت سوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں مخالف رائے کو تشدد سے دبانے کا رجحان عام ہو اور جہاں ایک مخصوص ذہنیت کو پروان چڑھا کر متنوع افکار کا گلا گھونٹنے کا چلن ہو تو اسے ایک گھٹن بھرا ماحول ہی کہیں گے۔

تعلیمی اداروں میں سوال اٹھانے کی تربیت عنقا ہے اور تحقیق کے سارے سوتے خشک پڑے ہیں۔ جامعات میں ایک مخصوص سوچ کو پروان چڑھایا گیا ہو اور ایک ایسے مذہبی ٹولے کی سرپرستی کی گئی جن کے نظریات سے اس ملک کی اکثریت کو کوئی سروکار نہیں۔ سرخ نعروں کے جواب میں یہ سبز انقلاب کے داعی ہیں اور ان کی صفوں سے اٹھنے والے جب عوامی انتخابات کے میدان میں کودتے ہیں تو چند سو ووٹ لے کر خجالت و شکست خوردگی کے چرکے کھا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ جس طرح سرخ نظریات کا دور لد چکا کچھ ایسے ہی مذہب گروہ کے سبز انقلاب کے نعرے بھی متروک ہو چکے ہیں۔

اج کی دنیا ترقی پسند اور جمہوری آدرشوں کی دنیا ہے جس میں فرد ہو یا کوئی قوم ایک ارتقائی عمل کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ انقلاب کا خمیر انسانی خون سے اٹھتا ہے، اس کو پروان چڑھتا ہے اور اس کی کامیابی کے بعد بھی انسانی خون بہتا رہتا ہے۔ ارتقائی عمل کو دوام حاصل ہے اور یہ قانون فطرت بھی ہے کہ قدرت نے پورے نظام ہستی کو ارتقاء کے ذریعے پروان چڑھایا۔ آج کا پاکستان بھی ایک ایک ارتقائی عمل کا متمنی ہے جس میں ازکار رفتہ سرخ اور سبز انقلابی نعروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

پاکستان کو ایک جمہوریت پسند اور ترقی پسند معاشرے کے قالب میں ڈھالنا اس ملک کے بانیان کا خواب تھا۔ بانیان پاکستان سرخ انقلاب کے نعروں سے قطعی متاثر نہ تھے اور سبز انقلاب والو کے طنز و دشنام کا شکار رہے۔ ان کا اول و آخر نصب العین جمہوری و ترقی پسند پاکستان کے تھا۔ جہاں فرد کو جینے اور سوچ و فکر کی مکمل آزادی ہو۔ جہاں شہری آزادیوں پر کوئی قدغن نہ لگائی جا سکے۔ جہاں جمہوری آزادیوں پر خوف و جبر کے پہرے نہ ہوں۔

جہاں مذہب و نسل کی بنیاد پر انسانوں سے امتیاز نہ برتا جائے۔ ستر برسوں میں بدقسمتی سے بانیان پاکستان کے تصورات کے برعکس ایک معاشرے کو پروان چڑھایا گیا۔ ایک مخصوص ریاستی بیانیے پر پوری قوم کو آمنا صدقنا کہنے کے لیے تلقین، ترغیب اور تادیب کے سارے گر آزمائے گئے۔ تاریخ کے ایک مخصوص پہلو سے روشناس کرا کر ایک ایسی نسل تیار کی گئی جن کے نزدیک اس سے اختلاف کرنا ایک بھیانک جرم ہے۔ آج کی دنیا میں معلومات تک رسائی کے بے پناہ مواقع اور فورم موجود ہیں۔

ایک گھٹن زدہ ماحول میں ایک پوری قوم کو تادیر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ خاص کر نوجوان طبقہ جس کے اندر باغیانہ اور سرکشی کے جراثیم کلبلاتے رہتے ہیں انہیں پاکستان میں ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہوگا جہاں وہ آزادی سے سانس لینے کے ساتھ ساتھ اپنی فکر و سوچ کے ساتھ جی سکیں۔ گھر سے تعلیمی ادارے تک انہیں اس گھٹن سے آزاد کرانا ہوگا جس نے ان کی فکر و سوچ کے ساتھ ساتھ اس کے اندر تحقیق و تخلیق کی صلاحیتوں کو بھی قتل کر دیا ہے۔ آج کے طلباء کو سرخ و سبز کے بے معنی نعروں سے آزاد کرانے کے لیے ریاست کو اپنا بیانیہ بدلنا ہوگا کہ جس میں عوام ریاست کے مفادات کے لیے نہیں بلکہ ریاست عوام کی بہتری کے لیے قربانی دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).