خدارا اقبال لالہ کو تو بخش دیں


مشعال خان جس کو مردان یونیورسٹی میں طلبہ کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پرتوہینِ مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر بیدردی سے اسی یونیورسٹی کے غنڈوں نے انتظامیہ کے ساتھ مل کر شہید کردیا تھا۔ اس کا بوڑھا باپ، اقبال لالہ جب 29 نومبر کو ملک گیر طلبہ یکجہتی مارچ میں شرکت کرنے کے لیے مال روڈ لاہور آیا تو اس کی آنکھیں اپنے پیارے بیٹے مشعال کو یاد کر کے بھر آئیں۔ جس نے جہاں ایک طرف مارچ کے ماحول کو غمگین بنا دیا تو دوسری طرف کیمرے کی آنکھ نے اس منظر کو محفوظ کر لیا جس نے سوشل میڈیا پر کتنے ہی لوگوں کو دل گرفتہ ہونے پر مجبور کر دیا۔

اقبال لالہ کو جب مارچ کے اختتام پر تقریر کرنے کے لیے بلایا گیا تو اس وقت طلبہ کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ اور فضا مشعال خان کے حق میں لگائے گئے نعروں سے گونج رہی تھی۔ اس وقت بھی وہ یہ کہتے ہوئے جذباتی ہوگئے کہ اگر ان کا بیٹا اس وقت یہاں پر موجود ہوتا تو ان کو کتنی زیادہ خوشی محسوس ہوتی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مشعال کو روکتے تھے کہ بیٹا یہ لوگ بہت ظالم ہیں۔ تم اس طرح سے ان کو مت للکارا کرو یہ تمہیں نقصان پہنچادیں گے۔

مگر مشعال نے ہمیشہ ڈر اور خوف کی بجائے حق اور سچ کا ساتھ دے کر ہمیشہ بہادری سے جینے کو ترجیح دی۔ آج آپ سب کو اس طرح اسی مقصد کے لیے اکٹھا دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔ جس کے لیے میرے بیٹے نے اپنی جان کو نذرانہ پیش کیا۔ انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ مشعال نے مزاحمت کا جو بیج بویا تھا آج وہ آپ سب کی صورت میں ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ جو وقت کے ساتھ اور پھلے پھولے گا۔

اقبال لالہ کے یہ الفاظ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو اتنے ناگوار گزرے کہ ان خلاف نقصِ امن، لاوڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی، ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر جیسے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر دیا گیا۔ میں اور میرے جیسے بہت سے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اقبال لالہ کی طرف سے کی گئی ان باتوں میں سے کون سی ایسی بات تھی جس میں ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال دلایا گیا ہو۔ یہ بوڑھا شخص جو صرف اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والے ظلم پر اگر بات کر کے اپنے من کا بوجھ ہلکا کرلیتا ہے تو یہ بھی مقتدر حلقوں کو قبول نہیں ہے۔ اگر آپ ان کے زخموں کا مداوا نہیں کرسکتے تو کم از کم اس طرح کا اقدام اٹھا کر ان کو مزید تکلیف اور اذیت تو نہ دیں۔

یہ جو مقدمہ دائر کیا گیا ہے اس میں اقبال لالہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ پانچ اور لوگ بھی شامل ہیں۔ جن میں ایف سی کالج کے پروفیسر عمار علی جان، پنجاب یونیورسٹی شعبہ جینڈر سٹڈیز کے طالب علم عالمگیر وزیر، پرانے سوشلٹ ورکر فاروق طارق، کامل خان اور محمد شبیر بھی شامل ہیں۔ ان میں سے عمار علی جان نے تو تقریر کی ہی نہیں تھی پھر بھی ان کا نام ایف آئی آر میں شامل ہے۔ عالمگیر وزیر کا نام ریاست کی غلط پالیسی پر تنقید کرنے کی وجہ سے ناصرف ایف آئی آر میں شامل کیا گیا بلکہ ان کو پنجاب یونیورسٹی سے اٹھا لیا گیا اور وہ ابھی تک لاپتہ ہیں۔

طلبہ یکجہتی مارچ کو ایک طرف تو گورنر پنجاب اور دیگر حکومتی اراکین کی طرف سے سراہا گیا اور طلبہ کے مسائل کے حل کی بھی بات کی گئی۔ بلکہ وزیرِاعظم عمران خان کی طرف سے بھی طلبہ تنظیموں کی بحالی کے حوالے سے ٹویٹس کی گئیں جو کہ خوش آئند امر ہے۔ مگر دوسری طرف اسی مارچ میں شامل ہونے والے لوگوں کو اغواء کیا گیا اور ان پر مقدمہ بھی دائر کیا گیا۔ عمران خان صاحب اگر واقعی طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں تو ان کو صرف ٹویٹس پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ وہ سب سے پہلے عالمگیر وزیر کی بازیابی، اقبال لالہ اور دیگر افراد کے خلاف دائر کیے گیے مقدمے کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں۔ اور پھرطلبہ یونینز کی بحالی اور طلبہ کے دیگر مسائل کے حل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان کریں۔

باقی یہ طلبہ یکجہتی مارچ تو ایک تحریک کا آغاز ہے۔ جو طلبہ یونینز کی بحالی، یکساں نظامِ تعلیم کے حصول، فیسوں میں کمی، تعلیمی اداروں میں طلبہ کے خلاف ہراسگی اور انتظامیہ کی بدمعاشی اور دیگر مسائل کے حل تک جاری رہے گی۔ کیونکہ ان سب مسائل کی وجہ سے بہت سے طالبِ علم خود کشی کر چکے ہیں جو کہ بہت افسوس ناک ہے۔ اور ان نوجوانوں کی ہمت کو کسی بھی طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اپنے حقوق کی جنگ ضرور جیتیں گے کیونکہ ان کے پاس مشعال خان جیسا ولولہ اور اقبال لالہ جیسا جذبہ موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).