شادیوں کا جان لیوا سیزن


موسم کے خوشگوار ہوتے ہی شادیوں کا سیزن شروع ہو گیا ہے۔ کبھی شادی کے لئے عمر ہوتی تھی اب صرف سیزن ہوتا ہے۔ لوگ اب شادی کے لئے عمر کم اور سیزن کا انتظار زیادہ کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو شادی کرنے کی چیز ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ہر کوئی شادی کرانے کے چکر میں پڑا رہتا ہے۔ شادی رزق کھولتی ہے لیکن شادی عقل کو تالہ بھی لگا دیتی ہے۔ ہم کتنا بھی سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں شادی کبھی بھی عقل مندی کا فیصلہ نہیں گردانا جاسکتا۔ ویسے مجھے ذاتی طور پر شادیوں پہ جانا سخت نہ پسند ہے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان اٹھائیس سالوں میں کل ملا کے کوئی دس سے زیادہ شادیوں پے نہیں گیا ہوں گا۔

میں کوئی خدا نخواستہ شادی کے خلاف نہیں۔  بہودہ رسومات کے خلاف ہوں جس میں سب سے بڑھ کر مہندی اور ڈھولکی کی رسم جو کئی کئی دن جاری رہتی ہے اور شادی ایک مذہبی عقیدہ کی بجائے ایک جشن کا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ یہ کلچر خاص طور پر بر صغیر کے مسلمانوں کے حصے میں آیا ہے صرف وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ شادی کارڈ پر درج شادی کا شیڈول محض کاغذی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے اور متن کے آخر میں نہائت باریک مگر واضع انداز میں لکھی جانے والی یہ عبارت وقت کی پابندی ملحوظ خاطر رکھیں مضحکہ خیز معلوم ہونے لگتی ہے۔

ہمارے ہاں جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں وقت کا ضیاع ایک محبوب اور ہر دلعزیز مشغلہ ہے بالکل ایسے ہی شادی کے پروگراموں میں رات کے بارہ سے دو بجا دینا اور بعض صورتوں میں فجر کی اذانیں کروا دینا ہمارا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ وہ تو خدا بھلا کرے حکومت کا جس نے بوجوہ بجلی کے ضیاع کے مخصوص وقت مقرر کر رکھا ہے جس کے کارن شادی اور ولیمے کی تقریبات سے وقت مقررہ پر فراغت مل جاتی ہے۔

شادی کے بارے میں ایک کہاوت تو اکثر سننے میں آتی ہے کہ یہ وہ میوہ ہے جس نے کھایا وہ بھی پچھتایا اور جو کھانے سے محروم رہا وہ بھی پچھتایا، شاید اسی لئے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہر دو صورتوں میں پچھتانا ہی ہے تو اس میوے کو کھا کر ہی کیوں نہ پچھتایا جائے۔ اس کہاوت میں اس امر کی وضاحت نہیں ملتی کہ پچھتانا کس کو پڑے گا مرد کو یا عورت کو لیکن عام تاثر یہی ہے کہ پچھتانے والا مرد ہی ہوتا ہے۔ بہرحال ان سب لطیفوں اور کہاوتوں کے باوجود آج بھی دھڑا دھڑ شادیاں ہو رہی ہیں اب ہر روز دوپہر اور رات کو براتیں آ اور جا رہی ہیں۔

شادیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہے۔ اکثر اوقات ایک ایک دن میں کئی کئی شادیوں کو بھگتانا ایک مسئلہ جان بن چکا ہے، سلامیاں دے دے کر میرے جسے کنوارے کا ماہانہ بجٹ درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ا یہاں اس بات کی وضاحت کرتا کرتا چلوں کہ میں شادیوں پہ نہیں جاتا تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کے میں سلامی والا لفافہ نہیں بھجواتا

پاکستان میں شادی صرف لڑکی لڑکے کے بندھن کا نام نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ تصور کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ شادی سے پہلے خوب چھان پھٹک ہوتی ہے۔ خاندان اور حسب نسب کو اس چھان بین میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے بعد لڑکی اور لڑکے والوں کی طرف سے ایک دوسرے کی مالی حیثیت کو جانچا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً ایک جیسی مالی حیثیت یا عہدے مرتبے کے لوگ ہی ایک دوسرے کے رفیق بنتے ہیں۔ خاندان حسب نسب اور مالی حیثیت یا مرتبے کی قبولیت کے بعد لڑکے اور لڑکی کو ایک اور سکروٹنی سے گزرنا پڑتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑکے کی ماں اور بہنیں لڑکی کو لڑکے کی نظر سے نہیں بلکہ خاص اپنی نظر سے دیکھتی ہیں، کتنی سگھڑ ہے، خوش اخلاق ہے، ملتی ہے تو کیسے ملتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اکثر گھروں میں اتنی لمبی تلاش کے بعد پسند کی گئی لڑکی جب بیاہ کر آتی ہے تو وہی ماں جو صدقے واری جاتی ہے وہی بعد ازاں رقیب کا کردار اپنی پوری توانائیوں سے انجام دینے میں کسی بھی قسم کے بخل سے کام نہیں لیتی۔

۔ کچھ بھی ہو شادی ایک شاندار کام ہے جو صرف جی دارکرتے ہیں، وگرنہ تو شیخ رشید کی طرح صرف باتیں رہ جاتی ہیں شادی سے بچے پیدا ہوتے ہیں اور پھر بچوں کی بھی شادیاں ہو جاتی ہیں، یوں کہئے کہ شادی کسی کو بچہ نہیں رہنے دیتی حالانکہ شادی بچوں کا کھیل نہیں ہوتا! مگر کھیلا بچوں کے لئے جاتا ہے۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya