نیم لفٹین اور جنرل کیانی کی توسیع!


2011ء کا ذکر ہے۔ جناب آصف علی زرداری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اور سیّد یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کے عہدے پر فائزتھے۔ 2 مئی 2011 ء کو امریکی سپیشل فورسز (Special Forces) نے پاکستان میں ایک ہیلی بورن آپریشن (Heli Born Operation) کر کے مبیّنہ طور پر، مشہور عرب دہشت گرد، اسامہ بن لادن کو ہلاک کر کے اس کی لاش سمندر میں پھینک دی تھی۔ امریکن کمانڈوز کا افغانستان کے صوبے قندھار کی جانب سے تربیلا کے راستے ایبٹ آباد کے قصبے کاکول پہنچ کر رات کے اندھیرے میں آپریشن کر کے اسامہ بن لادن جیسے ہائی ویلیو ٹارگٹ (High value Target) انتہائی مطلوبہ ہدف، کو اُٹھا لے گئے تھے۔ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی تھی۔ واقعے کی تحقیقات کے لئے حکومت وقت نے جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنادیا۔ تاکہ حجّت تمام ہو سکے۔

ملکِ پاکستان کے طول و عرض میں برسات کے بعد اُگے ہوئے خود رو کھمبیوں کی طرح ٹی وی چینلز غوغائے سگاں کی مانند عوام کو بہکانے میں مصروفِ عمل تھے۔ اور عوام بیچاری جس کی اکثریت فکرِ معاش میں غرقاب زندگی بسر کرتی ہے حیران، پریشان اور انگشت بدندان تھی۔ طرح طرح کی کہانیاں ٹی وی چینلز پر منڈلا رہی تھیں۔ ”پاکستان کو پتہ تھا“۔ ”چوری پکڑی گئی“۔ ”مسلح افواج کو خبر ہی نہ تھی“۔ ”مذکورہ شخص اسامہ بن لادن تھا ہی نہیں بلکہ اس کا ہم شکل ایک کزن تھا۔ اسامہ بن لادن تو کئی سال پہلے افغانستان میں مارا جا چکا ہے“۔ ”کیا ہمارا سیکیورٹی سسٹم اتنا ناقص ہے“۔ ”غفلت کس کی ہے؟ “ ”یہ سیکیورٹی کی غفلت (Security Lapse) ہی۔ “۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۔

وفاقی پارلیمان میں مسلّح افواج کے سر براہان نے قومی نمائندوں کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے ایک بند کمرہ (In Camera) بریفنگ بھی دی۔ عام تاثر یہی تھا کہ سب کچھ اچانک اور لاعلمی میں ہوا۔ اور ایسا کہیں اور کسی ملک میں بھی ہو سکتا ہے۔ اور یہ کہ بہت کم بلندی پر اُڑنے والے چاپر (Choppers) بعض اوقات ریڈار میں نہیں آتے۔ بہر حال یہ ایک المیہ تھا جس کا تدارک کیا جانا ضروری تھا۔

فوج کے اندر غلط فہمیوں کا ازالہ اور مورال بلند رکھنے کے لئے آرمی چیف نے مختلف چھاؤ نیوں میں جا کر افسران سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنی سروس کی مدّت پوری ہونے پر رخصت ہونے کی بجائے، صدر آصف علی زرداری کی طرف سے مدت ملازمت میں دی گئی تین سالہ توسیع (Extension) پر آرمی کمانڈر کے فرائض جاری رکھے ہوئے تھے۔ ہر چھاؤنی کے اندر کسی بڑے ہال میں وہاں موجود تمام دستیاب افسران کو بُلا لیا جاتا، جہاں آرمی چیف واقعہ ایبٹ آباد پر اپنا مؤقف بیان کرتے اور وضاحت کرتے۔

اس کے بعد سوالات کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا جو چائے (Tea Break) کے دوران بھی جاری رہتا۔ ایک چھاؤنی میں چائے کے وقفے کے دوران جنرل کیانی چلتے چلتے جونئیر افسران کی طرف آ گئے اور بات چیت کرنے لگے۔ ایک نیم لفٹین(Second lieutenant) نے جنرل کیانی کا موڈ خوشگوار اور ماحول سازگار جان ایک عجیب سوال کر دیا: ”سر! شاید اب آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ایکسٹینشن نہ لیتے تو اچھا تھا“ اس پر جنرل مسکرا دیے اور پیار سے جواب دیا ”نہیں“ (NO) ۔

موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے قریب ہی کھڑے ایک سینئر افسر نے موضوع بدل دیا۔ اور بات آئی گئی ہو گئی۔ نیم لفٹینوں کو فوج میں عموماً کم سِن، نا تجربہ کار اور معصوم سمجھا جاتا ہے۔ اور و ہ (Baby of the Regiment) کہلاتے ہیں۔ اور پھر وہاں پر سوالات کرنے کی اجازت بھی تھی۔ اس لئے اس نیم لفٹین کی ایک کڑوا مگر گہرا سوال کرنے پر کوئی سر زنش نہیں کی گئی تھی۔ مگر اس دن اس نیم لفٹین کا وہ معصوم سوال آئندہ آنے والے وقت کے لئے اہم سوال چھوڑگیا تھا:

ھوائے شب مجھے آئندگاں سے کہنا ہے

سو تیرے پاس امانت ہے گفتگو میری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).