یا اللہ یا رسول ہر کوئی بے قصور


اٹھارویں صدی کے برطانیہ میں قتل اور غداری  سے لے کر بارہ شلنگ مالیت سے زائد اشیا کی چوری سمیت دو سو بیس ایسے جرائم تھے جن کی سزا موت تھی۔پھر اٹھارہ سو تئیس کے ایک ایکٹ کے تحت صرف پانچ جرائم کی سزا موت قرار پائی اور انیس سو اٹھانوے کے برطانیہ میں سزائے موت کا قانون ہی ختم کر دیا گیا۔

پاکستان اور بھارت تقسیم کے بعد برٹش انڈیا کی جانشین ریاستیں قرار پائے۔یہاں آج بھی قتل، دہشت گردی، ریاست کے خلاف بغاوت اور ریاست و آئین سے غداری کی سزا موت ہے۔مگر جس طرح ہم دیسیوں نے باقی قوانین کو پانچ روپے کی ٹکیائی اور موم کی ناک بنا کے رکھ دیا، اسی طرح سنگین جرائم کی فردِ جرم کو بھی خصوصی اور ناگزیر حالات پر لاگو کرنے کے بجائے ٹکے ٹوکری کر ڈالا۔

مثلاً افضل گرو کو دسمبر دو ہزار دو میں ہونے والے بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی۔حالانکہ اس بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا کہ افضل گرو اس حملے میں براہِ راست شریک تھا۔ مگر بھارتی سپریم کورٹ نے دو ہزار پانچ میں اس کی اپیل مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ بھارت کے اجتماعی ضمیر کی تشفی کی خاطر افضل گرو کی سزاِ موت برقرار رکھی جاتی ہے۔

ابھی اکتوبر میں فنونِ لطیفہ اور تدریسی دنیا کی جانی مانی پچاس کے لگ بھگ سرکردہ شخصیات نے ملک میں بڑھتے ہوئے ہجومی تشدد کو روکنے کے لیے وزیرِاعظم نریندر مودی کو ایک خط نما اپیل بھیجی جس میں زبانی مذمت کے بجائے اس رجحان کی روک تھام کے لیے ریاستی سطح پر ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔ان شخصیات میں ہدایت کار شیام بینگل، انوراگ کیشب ، منی رتنم ، اپرنا سین ، شوبھا مدگل، سومیترا چٹرجی، رام چندر گوہا  جیسے قد آور لوگ شامل تھے۔لیکن بہار کے ضلع مظفر پور کے ایک تھانے میں ان پچاسوں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہو گیا۔جب یہاں وہاں سے لعنتیں پڑنا شروع ہوئیں تو یہ پرچہ خاموشی سے واپس لے لیا گیا۔

پاکستان میں ہم نے یہ تو سنا تھا کہ انیس سو سڑسٹھ اڑسٹھ میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے ساتھیوں پر ملک کے خلاف غداری کے الزام میں ایک خصوصی ٹریبونل میں اگرتلہ سازش کیس کے نام سے مقدمہ چلا۔مگر اس مقدمے کو درمیان میں ہی واپس لے لیا گیا اور شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو نہ صرف انیس سو ستر کے عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملی بلکہ شیخ صاحب وزارتِ عظمی کی دہلیز تک بھی پہنچ گئے اور پھر غدار قرار پا گئے اور پھر ایک علیحدہ ملک کے سربراہِ حکومت کے طور پر لاہور میں والہانہ خیر مقدم کے مستحق ٹھہرے۔

کچھ ایسا ہی ڈرامہ خان عبدالولی خان اور ان کی نیشنل عوامی پارٹی( نیپ)کے ساتھیوں کے ساتھ بھی ہوا۔غداری کے الزام میں وزیرِ اعظم بھٹو نے نہ صرف صوبہ سرحد اور بلوچستان کی حکومتیں برطرف کر کے نیپ کو کالعدم قرار دیا بلکہ پوری قیادت کو حیدرآباد ٹریبونل کے ذریعے جیل میں ڈال دیا اور پھر انھی غداروں کو چند برس بعد جنرل ضیا الحق کی حکومت نے باعزت بحال کر دیا اور بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے اس مقدمے میں پھانسی دلوا دی جس میں بھٹو براہ راست شریک بھی نہیں تھے۔

کچھ ایسی ہی کھلواڑ حدود قوانین اور اسلامی تعزیرات کے ساتھ بھی ہوئی۔جس پر چاہا شرعی قانون کی دفعہ لگا دی گئی ، جس پر چاہا محض انگریزی قانون کی دفعات عائد کر دی گئیں۔

کچھ ایسا ہی مسخرہ پن انسدادِ دہشت گردی ایکٹ مجریہ انیس سو ستانوے کے ساتھ بھی ہوا۔حالانکہ اس ایکٹ میں دہشت گردی کی باقاعدہ تعریف موجود ہے۔ مگر اس ایکٹ کو بھی آج تک اندھے کی لاٹھی کی طرح ہر جائز ناجائز طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔غیر سنجیدگی کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک عدالت نہیں بلکہ عدالتی مینیو ہے۔

ایک دہشت گرد پر خصوصی عدالت میں مقدمہ چلتا ہے تو اسے اور طرح کی سزا ملتی ہے۔اسی طرح کے دوسرے دہشت گرد پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلتا ہے تو اسے اور طرح کی سزا ملتی ہے اور اسی طرح کے تیسرے دہشت گرد پر ایک عام عدالت میں مقدمہ چلتا ہے تو اسے اور طرح کی سزا سنائی جاتی ہے یا پھر وہ بری ہو جاتا ہے۔

جو خصوصی یا فوجی عدالتیں کسی کو مجرم قرار دے کر سزاِ موت یا عمرقید سناتی ہیں ان میں سے ستر فیصد ملزموں کے بارے میں فیصلے قانونی نقائص کی بنیاد پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران یا تو بدل جاتے ہیں یا دم توڑ دیتے ہیں۔غرض وہ دھما چوکڑی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کہ کون سا مقدمہ سچا ہے،کون سا جھوٹا اور کس عدالت کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور کس عدالت کا فیصلہ بنیادی طور پر ناقص ہے۔

اندھے کی لاٹھی گھمانے کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ کے ارکانِ پارلیمان بھی بغاوت کے مقدمے میں ماخوذ ہیں اور سندھ یونیورسٹی کے وہ طلبا جو ناکافی رہائشی سہولتوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں ان پر بھی بغاوت کا پرچہ کٹ رہا ہے اور جو طلبا پنجاب یونیورسٹی میں ٹرانسپورٹ کے ابتر معیار کے خلاف بینر لے کر کھڑے ہوتے ہیں وہ بھی منافرت پھیلانے کے جرم میں یونیورسٹی سے چلتے کر دیے جاتے ہیں اور جو ہزاروں طلبا انتیس نومبر کو لاہور میں طلبا یونینوں پر سے پابندی ہٹانے کے حق میں مظاہرہ کرتے ہیں ان میں سے تین سو کے لگ بھگ کے خلاف بغاوت و غداری کے پرچے ہو جاتے ہیں اور اس رگڑے میں خان عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ہجوم کے ہاتھوں شہید ہونے والے مشال خان کے والد اقبال لالہ بھی آ جاتے ہیں۔

دوسری جانب وزیرِ اغظم عمران خان ، وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری ، وزیرِسائنس فواد چوہدری ، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور ٹویٹ بھی کرتے ہیں کہ وہ طلبا یونینوں کی بحالی کے ضابطہِ کار کی تشکیل سے اصولی طور پر اتفاق کرتے ہیں اور طلبا کے مطالبات کو جائز سمجھتے ہیں۔

اب مجھ جیسوں کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ اگر یہی انصاف ہے، قوانین کی سمجھ ، پاسداری اور عمل درآمد کا معیار اور مجرم اور نامجرم میں تمیز کا پیمانہ یہی ہے تو پھر لپاڈکی، دھما چوکڑی، طوائف الملوکی، ریاستی رٹ کی لاغری اور باوقار حکمرانی کے افسانے کا کیا مطلب ہے ؟ کوئی ایک فرد یا ادارہ جو اس چھیچھا لیدر کی ذمے داری قبول کرنے پر تیار ہو ؟

یااللہ یا رسول ہر کوئی بے قصور۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).