کیا ہمارے معاشرے کے مرد واقعی عورت نے پیدا کئے ہیں؟


پچھلے کچھ دنوں سے یکے بعد دیگرے ایسی خبریں سنی ہیں کہ شک ہو رہا کہ کیا مرد عورت سے پیدا بھی ہوئے ہیں؟

کہیں بچیوں کو ونی کیا جا رہا، کہیں انہیں نوچ کر بھنبھوڑ کر کنوؤں میں پھینکا جا رہا ہے، کہیں انہیں رشتہ نہ ملنے پر الزام لگا کر سنگسار کیا جا رہا ہے۔ پھر بھی ہم مردوں کی خود پرستی کا عالم یہ ہے کہ دو دو چار چار سال کی بچیوں پر جبر کا ذمہ دار انہیں کو قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ موت کے بعد ان کو قبروں سے نکال کر بے حرمت کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ ہمارا پاکستانی معاشرہ صحیح نہیں اور یہی سچ ہے۔ گرد کو کارپٹ کے نیچے کب تک دھکیلو گے بھائی، اب اور گنجائش نہیں رہی، غلاظت امڈ کے سامنے آ رہی ہے۔

یہ تب تک درست نہیں ہو سکتا جب تک مرد ان مردوں کو نہ روکیں۔ عورتیں تو کب سے چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں اب مردوں میں سے ہی کچھ کو کمر کسنا ہو گی۔ مردوں کی خرابیوں کو دیکھنا ہو گا۔

مردوں کی محفل میں بیٹھیں تو عمومی طور پر فحش گفتگو ہی ہوتی ہے، اسکولوں کالجوں کے مردانہ اسٹاف رومز سے لے کر چائے کے ڈھابوں تک پر عورت اور جنسی عمل پر انتہائی بے ہودہ اور اخلاق باختہ لطیفے انتہائی نارمل انداز میں شئیر ہو رہے ہوتے ہیں، حال ہی میں وائرل ہونے والی خواتین کی وڈیوز چسکے لے لے کر دیکھی جا رہی ہوتی ہیں۔ یہ مرد اساتذہ طلباء تک سے یہ گند شئیر کر رہے ہوتے ہیں، ہاں الزام عورت پر ہے۔

ایسے ایسے لوگ منڈیوں میں، دکانوں پر دفاتر میں گزرنے والی یا کام سے آنے والی خواتین پر جملے کستے ہیں اور ان کے جانے کے بعد ان کے جسم کو ڈسکس کرتے ہیں۔ محض چہرہ نہ ڈھانپنے پر ان کو جسم فروش قرار دے دیتے ہیں، برقعے اور عبایا سے ڈھانپے جسموں کے خدو خال تصور کر کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ڈسکس کر رہے ہوتے، راہ جاتی خواتین کے زیر جاموں کے سائز پر شرطیں لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہیں عمومی پاکستانی مرد۔ جن میں میں رہتا ہوں اور جن کو ابزرو کرتا ہوں، کوئی کوئی ہوتا ہے جو اس گند سے منع کرتا ہے تو اسے ”زنانہ“ یا ”کھسرا“ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے، اس کو پوچھا جاتا ہے کہ کیا مردانہ اعضاء نہیں ہیں جو تم ان باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ مگر سب برائی عورت ہے اس کے مطالبے ہیں اور اس کو ہر صورت دبا دیا جانا چاہیے۔

مردوں کو شادی کی پہلی رات بارے ایسے ایسے سکھانے والے ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ پہلی ہی رات اس سے تعلق قائم مت کرنا بلکہ اس کی عزت اتارنا تاکہ وہ ہمیشہ مطیع رہے، اس کو اس کی اوقات میں رکھنا، وہ وہ کچھ سنا ہے ان مشوروں میں کہ لکھنے کا سوچ کر کراہیت آتی ہے۔

یہ ہے پاکستانی مردوں کا اصل ہوس زدہ چہرہ ان کو عورت ہاں کرتی بھی بری لگتی ہے اور نہ کرتی بھی۔ اسی وحشت کے لیے شادی کر کے ایک جسم حوالے کر دیتے ہیں کہ بوقت ضرورت بھنبھوڑتے رہو۔ اس کی مرضی، کاہے کی مرضی، تم مرد ہو، تمہارے کہنے پر وہ تمہاری تسکین بھی نہ کرے تو کیسے مرد ہو۔

پاکستان پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہونی چاہیے تھی، کیا ایسا ہے؟

مجھے یہ سب اس لیے لکھنا ضروری لگا کہ چند ایک جگہوں پر کام کی غرض سے بیٹھنے کا اتفاق ہوا، موضوع گفتگو ہی ایسے تھے اور شدید متعفن خیالات خواتین کے لیے، اپنے گھر کی عورتوں کو عزت دیتے ہیں، ان پر بیٹی، بہن، ماں، بیوی ہوتے ہوئے ہر وقت اپنی ہی رائے مسلط رکھنا ہمارا مردانہ مشغلہ ہے۔

میری بیوی جاب نہیں کرے گی، کہہ دیا نہ، بس کہہ دیا

میری بیٹی مزید نہیں پڑھے گی، کہہ دیا نہ، بس کہہ دیا

میری بہن دوست کے گھر نہیں جائے گی، کہہ دیا نہ، بس کہہ دیا

اپنی ناراضگیوں میں ان کے رشتے ناتے تڑوا دیتے ہیں۔ اپنے ماں باپ سے ملنے بھی مرد سے اجازت لے کر جانا ہے، اچھا اب کہیں گے بتا کے نہیں جانا کیا، یہ کیا بات ہوئی؟ اجازت لینے اور بتانے میں بہت فرق ہوتا ہے جو مجھے معلوم ہے،

ہر پاکستانی مرد شادی کرتا ہے کہ عورت میری، میرے ماں باپ کی خدمت کرے، یہ خیال ماں باپ کو ان کے کئی بنیادی فیصلوں پر مسلط کر دیتا ہے، ایسی بہویں ہیں جن کے سسر فیصلہ کریں گے کہ وہ نیا سوٹ خرید سکتی ہیں، میکے جاسکتی ہیں، اور اگر چلی جائیں چاہے فوتیدگی پر ہی تو یہ ساس سسر فون کر کے پوچھتے ہیں، کب واپس بھجواؤ گے۔ یہ تسلط نہیں تو اور کیا ہے، مفت کا خدمت گزار خرید لائے ہیں، جس پر لیبر لاز بھی لاگو نہیں،

ہم ایک ذہنی مریض معاشرہ ہیں جس میں رواج سے لے کر عقائد کے نام پر استحصال خواتین کا ہوتا ہے، مرد نے اپنی عزت کا بوجھ خاتون پر ڈال رکھا ہے، کیوں؟

مسلہ کیا ہے بھائی، خود سب بیہودہ حرکتیں کرو اور ”خیر ہے مرد کرتے ہی ہوتے ہیں“ کے نعرے کے پیچھے چھپ جاؤ اور اپنی بے غیرتی کے صلے میں بچیوں کو ونی کر دو۔

شاباش، کیا مردانگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).