دعا منگی کا لباس نہیں، تمہاری سوچ ننگی ہے۔


تیس نومبر کی رات کراچی کے علاقہ ڈیفنس سے بیس سالہ دعا منگی کو اس کے دوست، حارث کے سامنے فائرنگ کر کے زبردستی اغواء کیا گیا۔ گولی لگنے کی وجہ سے حارث زندگی اور موت کی کشمش میں ہسپتال پڑا ہے۔ جبکہ اغواء کاروں کے بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ دعا کے گھر والوں اور دوستوں نے سوشل میڈیا پر اس کی تصویر لگا کر اس واقعہ کے بارے میں تفصیل بتائی تاکہ اس کی بازیابی کے حوالے سے جلد کوئی پیش رفت ممکن ہو سکے۔

دعا کے لیے کی گئی اس پوسٹ پر لوگوں کی طرف سے افسوس کا اظہار کیا گیا اور اس کی سلامتی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا گیا۔ مگر اس کے ساتھ ایسے بھی تاثرات اور تبصرے پڑھنے کو ملے جن سے دعا کے اغواء کا دکھ اور بڑھ گیا۔ ان میں سے کچھ اس طرح سے ہیں۔

”جیسی تصویر لگائی ہوئی ہے، کوئی ڈھونڈ کے دوبارہ اغواء کر لے گا۔ “

”تصویر دیکھ کر جو لڑکی کی حالت نظر آرہی ہے، اس نے اغواء ہی ہونا تھا اور کیا حج پر جانا تھا۔ “

”آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ اسے اغواء کیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے اپنی مرضی سے گئی ہو۔ ورنہ ایسے کپڑے پہن کر اس وقت کون لڑکی باہر آتی ہے۔

”ایسی ننگی لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بہت اچھے لڑکو۔ “

”یار، کیا لگ رہی ہے۔ آو اس کا ریپ کر کے آئیں۔ “

”جب آدھی رات کو ڈی ایچ اے کی برگر فیمینسٹ بچی اپنا جسم دکھاتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گندے کام کررہی ہو گی تو یہ تو ہو گا۔ “

”ویل ڈن کڈنیپرز۔ دعا جب رات کے وقت اپنے بوئے فرینڈ کے ساتھ باہر گھوم رہی تھی۔ اس کے گھر والے سکون سے گھر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ جو لوگ اپنی بچیوں کو بے لگام چھوڑتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ “

”یہ تو ہونا ہی تھا، اس کا لباس تو دیکھو۔ “

یہ سارے تبصرے اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جس کے مطابق عورت کے ساتھ ریپ سمیت تمام زیادتیاں اس کے لباس اور گھر سے باہر جانے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ مگر ان سب سے ایک سوال تو یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ ایسا کچھ ان کی بہن یا بیٹی کے ساتھ ہو جائے تب بھی کیا ایسی ہی فضول توجیحات پیش کریں گے؟ لیکن ان کی بہن یا بیٹی کے ساتھ شاید ایسا نہ ہو، کیونکہ یہ سب تو ایسا کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔

دوسرا یہ سوال کہ ذہنی طور پر بیمار ہمارے اس سماج میں جب ان جیسے لوگوں کی طرف سے زینب جیسی معصوم بچیوں کو اغواء کر کے ان کا ریپ کرنے کے بعد انھیں بیدردی سے مار دیا جاتا ہے۔ یا اپنے ہی گھر میں سات سالہ بچی سدرہ کا ریپ مردہ حالت میں اس کے چچا کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ یا انھیں گھر میں قاری صاحب کی طرف سے جب ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ان معصوم بچیوں نے کون سا عریاں لباس پہنا ہوتا ہے؟

ان جیسے لوگ جو لڑکیوں کو سکولوں، کالجوں میں برقعے پہنانا چاہتے ہیں، ان کی سوچ کے حساب سے تو پھر مردہ لڑکیوں کو بھی برقعہ پہنا دینا چاہیے، کیونکہ عزت تو یہاں مردہ لڑکیوں کی بھی محفوظ نہیں ہے، ان کی لاشوں کے ساتھ بھی ریپ ہوتا ہے۔ اسی طرح گھروں میں جو عورتوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ ان کو کاری کیا جاتا ہے، غیرت کے نام پرقتل کیا جاتا ہے۔ اس پر وہ کیا کہیں گے؟

اس لیے اے ذہنی طور پر بیمار اور اخلاقی طور پر شرم سے عاری لوگو، مسئلہ عورت کے گھر سے باہر نکلنے یا اس کے لباس کی نوعیت میں نہیں ہے بلکہ مسئلہ تمہاری گندی اور فرسودہ سوچ میں ہے۔ خود چاہے تم جتنی مرضی دوستیاں رکھو، افیئر چلاو، عورت کے جذبات کے ساتھ کھیلو وہ سب جائز ہے۔ مگر جب کوئی دعا منگی جیسی لڑکی اپنی مرضی سے اپنے دوست سے ملے اور اغواء ہو جائے تو تم اس کے لباس کو جواز بنا لیتے ہو۔ اس کا لباس نہیں، تمہاری سوچ ننگی ہے اس کو بدلو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).