سرخ انقلاب، نیلی نوٹ بک اور کالے نظریات


بائیں بازو اور دائیں بازو کی سیاست کو تیس برس یا اس سے کم عمر کے نوجوانوں نے صرف کتابوں میں پڑھا ہے۔ آج کے نوجوانوں نے جب ہوش سنبھالا تھا تو ملک میں نظریہ نام کی کسی چیز کا وجود نہیں تھا، صرف اقتدار کی خاطر دو پارٹیوں کی رسہ کشی تھی، جو اسٹبلشمنٹ کے سامنے خود کو زیادہ موزوں ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھیں۔ دس سال کی رسہ کشی کے بعد دونوں پارٹیاں اقتدار کے ایوانوں سے باہر ہوگئیں اور مسند اقتدار پر ایک آمر براجماں ہوگیا لیکن وہ بھی اپنی کرسی پکی کرنے کے لیے جمہوریت کا ہی ڈھونگ رچاتے رہے۔

اگلے دس سال ملک میں برائے نام جمہوریت چلتی رہی۔ پے در پے غلطیوں نے آمر کو اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور کردیا لیکن اب کی بار پھر وہی جماعتیں تھیں اور پھر وہی اقتدار کی رسہ کشی۔ پھر ایک غیر سیاسی نرسری میں سیاسی پیوندکاری کے ذریعے نئی پود کو اقتدار کے لیے تیار کیا گیا لیکن چوں چوں کے مربہ پر مشتمل اس نئے گروہ کے پاس صرف نعرے تھے نظریہ کوئی نہیں تھا۔ نعروں کی بنیاد پر نئے گروہ کو حکومت تو مل گئی لیکن ریاستی امور ایسے ہی انجام پانے لگے جو اس سے پہلے انجام پاتے رہے ہیں، یعنی ریمورٹ کنٹرول سے۔ اتنی لمبی تمہید باندھنے کی وجہ یہ ہے کہ تیس سال بعد ایک بار پھر نظریے کی باتیں ہونے لگی ہیں، دائیں اور بائیں بازو کے لوگوں کی درجہ بندی ہورہی ہے اور سیاست کو اقتدار کے غلام گردشوں کی لونڈی کے بجائے نظریہ کے تخت کی شہزادی بنانے کی سرگوشیاں ایک کان سے دوسری کان تک محو سفر ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ تیس برس بعد اٹھنے والی تبدیلی کی اس لہر میں غوطہ زن نوجوانوں کے پاس نظریہ وہی ہے جو کئی تجربہ گاہوں میں آزمانے کے بعد بھی خاطر خواہ نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ لال لال لہرائے گا اور ایشیا سرخ ہوگا کانعرہ نوجوان کے لیے پرجوش ہوسکتا ہے، لیکن معاشرے کے لیے فائدہ مند کسی بھی صورت نہیں ہے۔ جو نعرہ آج پاکستان کے نوجوان لگارہے ہیں وہی نعرے آج سے ایک صدی پہلے لینن کی قیادت میں روس کے نوجوان لگا رہے تھے۔

لینن کے بارے میں ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ”روس کو بظاہر خوبصورت نظر آنے والی دلدل میں لینن اکیلے لے کر گئے تھے اوروہ روس کو اس دلدل سے نکالنا بھی چاہتے تھے لیکن موت نے مہلت نہیں دی“۔ ونسٹن چرچل کی اس بات میں کتنا وزن ہے اس بحث میں پڑے بغیر ہم اسٹالن کے دور کا جائزہ لیں تو ونسٹن چرچل کی یہ بات سو فیصد سچ ثابت ہوتی ہے۔ اسٹالن کے تیس سالہ دور اقتدار میں لینن کے لگائے ہوئے نعروں کو بنیاد بنا کر سویت یونین کے کروڑوں لوگوں کو موت کے منہ میں جھونک دیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران صرف اسٹالن گراڈ کے معرکہ میں گیارہ لاکھ انتیس ہزار چھ سو انیس روسیوں کو جان کی قربانی دینی پڑی۔ ہٹلر اور ان کے اتحادیوں کے آٹھ لاکھ اڑسٹھ ہزار تین سو چوہتر فوجی اس کے علاوہ تھے۔ دو انسانوں کے نظریات کی خاطر بیس لاکھ افراد صرف ایک لڑائی میں لقمہ اجل بنے۔ یہی وجہ تھی کہ تیس اور چالیس کی دہائی میں اسٹالن کی قیادت میں دوسری جنگ عظیم میں داد شجاعت دینے والے ایمانویل کازیکیوچ کو ”دی بلیو نوٹ بک“ جیسی شاہکار کتاب لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی جس میں اسٹالن کی خونریزیوں پر مبنی پالیسی کے بجائے معاشرتی تبدیلیوں کے لیے لینن کی اس سوچ کو زیر بحث لایا گیا ہے جس میں قتل و غارت کی نفی کی گئی ہے۔ ”لال لال لہرائے گا“ کا نعرہ لگانے والے نوجوان اگر ایمانویل کازیکویچ کی کتاب ”دی بلیو نوٹ بک“ پڑھ لیں تو اس میں سے کوئی ایسا نظریہ دریافت کر سکتے ہیں جو ایشیا ئکو سرخ کرنے کے بجائے اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے سبز رنگ میں ہی تازہ نکھار کاباعث بنے۔

لال لال لہرائے کا نعرہ بلند کرنے والوں جا بجا شی گویرا کی تصویریں نظر آئیں جنہوں نے موٹر سائیکل ڈائیریز اور بعد میں اپنے طرز عمل سے انسانیت کی خدمت کو کسی بھی انقلابی کا سب سے بڑا نصب العین قرار دیتے رہے ہیں لیکن اسی انقلابی شی گویرا کے سامنے جب امریکا پر ایٹم بم گرانے کی بات آتی ہے تو وہ یہ کہہ کر انسانیت سے محبت کرنے والوں کو کوسوں دور بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ ”ایٹم بم مار کر لاکھوں لوگوں کے قتل کرنے سے اگر سامراجی نظام ختم ہوسکتا ہے تو یہ نقصان کا سودا نہیں ہے“۔

دوسری جانب ہم بائیں بازو کی جانب نظر دوڑائیں تو وہاں نظریات کی اتنی بھرمار ہے کہ ایک اینٹ اکھاڑو، دس نظریے اچھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دائیں بازو کے نظریاتی اکثرجہاد افغانستان کی پیدوار ہیں جنہیں سرخ انقلاب کی سرکوبی کے لیے جہاد کا نظریہ دیا گیا تھا۔ یہ نظریہ سویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کا باعث تو بن گیا لیکن کابل میں اقتدار کی کرسی خالی ہوتے ہی سارے نظریات کلاشنکوف کی نالی سے باندھ کر اڑا دیے گئے۔

مجاہدین آپس میں کچھ ایسے دست و گریباں ہوگئے کہ انہیں چھڑانے کے لیے طالبان کے نام سے ایک اور نظریہ مسلط کیا گیا، ہمارے دائیں بازو کے سرفروشوں کا ایک حصہ اس نظریے کے سائے میں پلے بڑھے ہیں۔ طالبان نظریے کے غبارے سے کابل پر قبضے کے اگلے دن ہی ہوا نکل گئی تھی جب کابل کے چوراہے پرپناہ گزین ڈاکٹر نجیب کی لاش لٹکائی گئی اور حجاج بن یوسف کی یاد تازہ ہوگئی جنہوں نے مکہ کے باہر عبد اللہ بن زبیر کی لاش تین دن تک لٹکانے کا حکم دیا تھا۔

دائیں بازو کے مٹھی بھر نظریاتی اسامہ بن لادن کے پیروکار بھی ملیں گے۔ وہی اسامہ بن لادن جو اپنے طرز عمل کے حساب سے شی گویرا کے الٹ تھے لیکن امریکا دشمنی میں وہ بھی شی گویرا سے کسی صورت کم نہ تھے، دونوں لاکھوں امریکی ”جہنم واصل“ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ کچھ دائیں بازو کے پیروکار وہ بھی ہیں جو قائد اعظم کی طرح خون کا قطرہ بہائے بغیر انقلاب لانے پر یقین رکھتے ہیں لیکن جس معاشرے میں قائد اعظم کی کسی نے نہیں سنی وہاں ان کے ہم خیالوں کی کیا اوقات ہے۔

نوجوان جاگ رہے ہیں اور پاکستان کا مستقبل بھی انہی نوجوانوں سے وابسطہ ہے لیکن یہ نسل بھی اگر سرخ اور سبز نظریوں کی بھنت چڑھ گئی تو اس کے بہارکی امید دور دور تک نہیں ہے، پھر تو دہائیوں تک دسمبر ہی رہے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).