جہانگیر ترین بمقابلہ چوہدری پرویز الہیٰ


تحریک انصاف کے دور اقتدار کا دوسرا سال چل رہا ہے اور دوسرے سال میں بھی حکومت مکمل یکسوئی کے ساتھ امور مملکت چلانے میں ناکام نظر آرہی ہے پے در پے تبدیلیوں، بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود مرضی کے نتائج نہیں مل پارہے۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی نے ملکی سیاست پر ایک سیاسی اسموگ کی کیفیت طاری کردی ہے۔ پورا میڈیا ہاتھ دھو کر پنجاب حکومت کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور ہر روز وزیر اعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کی خبریں شدومد کے ساتھ جاری ہوتی ہیں مگر نا تو پنجاب کاوزیر اعلیٰ تبدیل ہوپایا اور ناہی پنجاب کابینہ کی کارکردگی بہتر ہوسکی۔

مولانافضل الرحمن کے دھرنے کے بعد چوہدری برادران سے متعلق افواہیں گردش میں تھیں کہ چوہدری پرویز الہیٰ وزیر اعلٰی پنجاب بن رہے ہیں ان کے قریبی ذرائع 15 دسمبر تک تبدیلی کی نوید دے رہے تھے ایسے میں وزیراعظم عمران خان نے لاہور کادورہ کیا اور صوبائی کابینہ کے اجلاس کے دوران کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ کابینہ کے بہت سے لوگ وزیراعلیٰ پنجاب بننا چاہتے ہیں مگر ان کو چار سال تک انتظار کرنا ہوگا۔ اس بیان کے ساتھ ہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ میں تبدیلی کی افواہیں دم توڑ گئیں۔

اس کے ساتھ ہی بظاہر چوہدری برادران بھی خاموش ہوگئے ہیں یا پھر فی الوقت خاموش کرا دیے گئے ہیں۔ لگتا ایسے ہے کہ تحریک انصاف کو ایک موقع دیا گیا ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات کرے جس کے نتیجے میں پنجا ب کی بیوروکریسی میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پنجاب کی انتظامی مشینری کی ٹاپ کی پوزیشنز سے لے کر اضلاع کی حدتک افسران کوتبدیل کردیا گیا ہے ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ شہباز شریف کی ٹیم کو آگے لایا گیا ہے کہ وہ پرفارم کرے ایسے میں ایک سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس کو کل تک مافیاز کہا جاتا رہا آج یکایک وہ کیسے بہتر ہوگئے اور فی الوقت کپتان کے پاس اس سوال کا جواب نا ہو۔

ایک سوال اب بھی ہے کہ کیا پنجاب میں بیوروکریسی کی تبدیلی سے شہباز شریف جیسی پرفارمنس حاصل ہوجائے گی؟ تو اس پر تحریک انصاف کو سوچنا ہوگا کہ پنجا ب میں اچھی پرفارمنس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کوئی اور نہیں خود تحریک انصاف ہے۔ ایک صوبائی حکومت میں طاقت کے مختلف مراکز ہیں اطلاعات کے مطابق کچھ محکمے گورنر ہاؤس، کچھ علیم خان اور کچھ جہانگیر ترین کو رپورٹ کررہے تھے جبکہ ذرائع کے مطابق کچھ بیوروکریٹس کا وٹس ایپ پر بنی گالہ سے بھی رابطہ تھا اور وہ وہاں سے ہدایات لے رہتے تھے۔

طاقت اور اختیارات کی تقسیم نے پنجاب میں ترقی کا عمل روک دیا جبکہ شہبازشریف پنجاب میں بلاشرکت غیرے حکمران تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے پاس اختیارات کتنے ہیں یہ کپتان اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ تحریک انصاف اور کپتان کو وزیراعلیٰ پنجاب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کی ہڑبونگ اور افراتفری کے سارے الزامات خود پر لے کر ان کو تنقید سے بچا رہے ہیں۔ پنجاب کابینہ میں بھی تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں اور وزرا کو اپنی پرفارمنس بہتر کرنے کے لیے وارننگ دی گئی ہے۔

حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے والے کچھ میڈیا ہاؤسز نے کہنا شروع کردیا ہے کہ حکومت کے پاس مارچ تک کا ٹائم ہے اس کو اپنی کارکردگی بہتر بنانی ہوگی۔ یہ وہی مارچ ہے جس کا ذکر مولانا فضل الرحمن نے اے پی سی میں کیا تھا۔ مارچ بھی دور نہیں ہے جلد آجائے گا تو کیا جو کام گزشتہ ڈیڑھ سال کی مدت میں نہیں ہوپایا کیا آئندہ تین ماہ میں ہوپائے گا؟ کیا پنجاب حکومت مارچ تک اپنا رنگ جما سکے گی؟ اللہ کرے ایسا ہوجائے مگر لگ ایسا رہا ہے کہ نہیں ہو پائے گا۔

اور اس کی سب سے بڑی وجہ خود تحریک انصاف ہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو مزید بہتر اورجرات مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے اور پارٹی کے اندر موجود پریشر گروپس کو ختم کرنا ہوگا۔ اتحادیوں سے فاصلوں کوکم کرنا ہوگا اور ان کو قریب لانا ہوگا۔ اطلاعات ہیں کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کی حالیہ ممکنہ تبدیلی طے ہوچکی تھی اور شاید چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جاتا کہ جہانگیر خان ترین نے عین وقت پر کپتان سے کہا کہ اگر چوہدریوں کو پنجاب کی ذمہ داری دی جاتی ہے تو ہم ساتھ نہیں چل سکیں گے۔

اگر ان اطلاعات میں صداقت ہے تو پھر یہ دھمکی کام کرگئی اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ میں تبدیلی کا فیصلہ موخر کردیا گیا اور اس کو بہتر کارکردگی سے مشروط کردیا گیا۔ اور یوں جہانگیر خان ترین کے اس اقدام نے چوہدریوں کو پنجاب کا چوہدری بننے سے روک دیا۔ مگر چوہدری صبر کا دامن نہیں چھوڑ رہے شاید ان کو یقین ہے کہ بالآخر فیصلہ ان کے حق میں ہونا ہے مطلب یہ کہ حکومت پرفارم نہیں کرپائے گی اور تبدیلی آج نہیں تو کل ناگزیر ہے۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایم کیوایم سندھ میں اپنے کردار کا مطالبہ کررہی ہے حکومتی اتحادی ہونے کے سبب ان کی بات کو نظرانداز کرنا شاید کپتان کے لئے ممکن نا ہو۔ ایک چیلنج یہ بھی کہ معاشی اشاریے حکومتی بیانات کے مطابق بھلے بہتر ہورہے ہوں مگر عام آدمی تک ریلیف کب تک پہنچے گا اس پرسوچنا ہوگا۔ بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے ان قیمتوں میں کمی بھی حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

مقبوضہ کشمیر پر حکومت کو توجہ دینی ہوگی اور ایک ٹھوس لائحہ عمل اپنانا ہوگا وگرنہ آئندہ عام انتخابات میں اس سوال کا جواب شاید حکومت کے پاس نا ہو۔ ایک ٹائم بم کی ٹک ٹک کی طرح وقت تیزی سے گزررہا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ حکومت کو مزید بہتر پرفارم کرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے بھی کوئی خاص پریشانی کا سامنا نہیں ہے سوائے مولانا فضل الرحمن کے جن کا دھرنا فی الوقت توٹل گیا مگر ان کے مطابق اگر ان سے کیے گئے وعدے پورے نا ہوئے تو موسم بہتر ہونے پر حکومت ایک اور دھرنے کے لئے تیار رہے۔ اور حکومت کو علم ہونا چاہیے کہ مارچ میں اسلام آباد کا موسم بہت شاندار ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).