کمی سیدھا اور حاسد باجی


”کمی سیدھا“ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ وہ کہنے کو تو لڑکا تھا لیکن ادھورا، اس کے گھر والوں نے اسے لڑکا بنا کر پرورش کی۔ جوں جوں اس کی عمر بڑھی وہ اپنے اندر کا ادھورا پن زیادہ محسوس کرنے لگا۔ یوں تو اس کا نام کامران تھا۔ لیکن گھر میں اسے کمی سیدھا کہا جاتا اور کمی ہی سمجھا بھی جاتا۔ وہ اپنے گھر میں اپنے بھائی اور باپ کے بیچ مس فٹ تھا۔ ان کی باتوں میں بار بار اس کی تضحیک کا پہلو نکلتا۔ عورتوں میں اس کا دل لگتا وہ گاؤں کی شادیوں میں ناچتا گاتا اپنے گھر میں بھی اسے اپنی ماں کے ساتھ گھر کے کام کرنے میں ہی دل لگتا، مگر جب اس کا باپ اسے عورتوں کی طرح گھر سنبھالتے دیکھتا تو اس کی خوب پٹائی کرتا کہ کہیں کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ مرد نہیں ایک ”ہیجڑا“ ہے۔ جب اس کا باپ کمی کا مستقبل سوچتا تو لرز کر رہ جاتا۔ اکیلے میں روتا، اس وقت کو کوستا جب کمی پیدا ہوا، وہ دل میں سوچا کرتا کاش میں اس بدبخت کا گلا گھونٹ دیتا، کاش وہ پیدائش کے وقت ہی مر جاتا کاش!

گھر اور گھر کی باہر کی کیفیت سے ایک روز کمی نے سب کچھ چھوڑ کے بھاگ جانے کا فیصلہ کیا اور سیدھا ریل گاڑی میں بیٹھ کر آخری اسٹیشن پہنچا۔ ہیاں اسے کوئی نہیں جانتا تھا وہ جیسے چاہے ویسے رہ سکتا تھا۔ وہ اسٹیشن پہ ہی ایک ہیجڑے سے ملتا ہے اور اس کی مدد سے وہ ہیجڑوں کی ٹولی میں شامل ہو جاتا ہے۔ وہ تمام دھندے جو ہیجڑوں کی ٹولی کرتی وہ خوشی خوشی کیا کرتا۔ جیسے اس کے من کی مراد پوری ہو گئی ہو۔ کراچی آ کے کمی نے کبھی پلٹ کر نہ دیکھا۔ تتلی کی طرح اڑتے وہ ایک روز ایک سوشل ورکر سے ٹکرایا جس نے اس کی زندگی کو ایک نیا رخ دیا۔

فلاح وبہبود کے ادارے سے اس کی زندگی کو ایک نیا رخ مل گیا۔ سوشل ورک کا ادارہ دبے ہوئے طبقے کے لیے کام کرتا جیسے اسٹریٹ چلڈرن، طوائف، خواتین اور ہیجڑے۔ کمی سیدھا اپنے نام کی طرح سادہ انسان تھا، وہ جی جان سے بچوں، خواتین، طوائف اور ہیجڑوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے لگا، عورتوں کے لئے جتنا کمی نے کیا اتنا کسی عورت نے بھی نہیں کیا، عورتوں کے حقوق کے لیے واک کا انعقاد سب سے پہلے اس نے ہی رکھا۔ بچوں کے لیے اسکول، لنگر، ایچ آئی وی سے بچاؤ کی تحریک اور ناجانے کیا کیا کچھ۔

بحیثیت سوشل ورکر کمی نے اپنی ایک پہچان بنا لی۔ وہ تیزی سے ترقی کرتا فلم انڈسٹری تک پہنچ گیا۔ وہ پہلی ہجیڑا ہیروئن بنا جو اول درجے کی فلموں تک پہنچا۔ ٹی وی کمرشل، اور ماڈلنگ کی انڈسٹری میں کمی چمکتا ستارہ بن گیا۔ وہ اپنے گھر پیسے بھجنے لگا، دوبارہ اپنے گھر والوں سے ملاقات کی، گھر والے بھی پیسے کی ریل پیل دیکھ کر سب بھول گئے۔

لیکن دنیا والے کہاں کسی کی کامیابی سے خوش ہوتے ہیں، کمی سیدھا بھی حسد کی بھٹی میں گر گیا وہی باجی جو اسے سوشل ورک کی دنیا میں لائیں جو ہر جگہ فنڈز کے حصول کے لیے کمی کی فوٹو اور پروفائل بھیجا کرتی تھیں وہی سب سے پہلے کمی سے مخالف ہوئیں اور اس کی کردار کشی پہ لگ گئی۔

سوشل ورکر باجی کا یہ ہی طریقہ تھا جب وہ کسی کی کامیابی دیکھتیں تو یوں ہی کیا کرتیں، کمی چونکہ سیدھا تھا اور باجی اس کے لیے خدا کا اوتار تھی اس لیے وہ ان کے غلط کو بھی صحیح ہی کہتا۔ جس زمانے میں ”می ٹو“ کا نیا نیا فساد جاگا، باجی نے پورے ہوم ورک کے ساتھ مشہور لوگوں کو ٹارگٹ کیا، جیسے ڈاکٹر، ٹیچر، مشہور اداکار وغیرہ۔ کمی نے کبھی بھی یہ نہ سوچا تھا کہ اس کو بھی اسی پھندے میں پھنسایا جائے گا۔

جب کمی کے خلاف تحریک شروع ہوئی وہ یہ سمجھا بھی نہیں کہ یہ باجی ہیں جو پردے کے پیچھے ہیں۔ لیکن جس روز اس کا نام ایوارڈ کے لیے چنا گیا اسی شام باجی کے ”ٹوئٹر“ دیکھ کر وہ صدمہ زدہ ہو گیا۔

الزام بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا۔ کمی کا سر چکرا رہا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے اس کی باجی جس کو زمین پہ خدا کا دوسرا روپ مانتا تھا وہ ہی اس کی سب سے بڑی دشمن ہو سکتی ہے۔

کچھ عرصہ تو وہ صدمہ میں رہا پھر اس نے جو کچھ ان برسوں میں سیکھا تھا سب باجی کو پلٹ کر دیا، باجی بھی ابھی تک مڈل کلاس گھرانے کے پڑھے لکھے لوگوں کی عزت اتارنے کی عادی تھیں وہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ ایک وقت آتا ہے جب گرو گڑ اور چیلا چینی ہو جاتا ہے۔

جس دن باجی نے کمی کا نام عورتوں کے حقوق کی تنظیم سے خارج کروایا۔ کمی نے باجی اور ان کی منیجر کے نام کا پرچہ کٹوایا۔

سنا ہے کچھ دن پہلے باجی کے نام کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو وہ امریکہ بھاگ گئی۔

کمی دھوم دھام سے ایوارڈ لے آیا اور نئے پراجیکٹ پر کام کرنے میں لگا ہوا ہے۔

جس روز کمی نے ایوارڈ وصول کیا اس نے ٹویٹ کیا ”باجی جی دنیا میں سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے لہٰذا نشانہ دیکھ کر لگائیں میں مرد نہیں ایک ہیجڑا ہوں! شکریہ“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).