طلبہ اب کیا کرنے جارہے ہیں؟


دنیا کے جمہوری ممالک میں طلبہ تنظیموں کو سیاست کی نرسری کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اسکول کالجوں اور جامعات میں ایک پڑھا لکھا ماحول ہوتا ہے طلبہ یہاں اس پڑھے لکھے ماحول میں اپنی بات کرنا اور حق کے لئے آواز اٹھانا سیکھتے ہیں بعد ازاں اگر وہ ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو اسکول کالجوں میں ہونی والی تربیت ان کے مزاج میں نظر آتی ہے۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے طلبہ یونین پر پابندی ہے۔

یہ پابندی جنرل ضیا الحق کے دور میں عائد ہوئی لیکن اس کے بعد آنے والی سویلین حکومتوں نے بھی اس پابندی کو برقرار رکھا۔ بے شک سیاست دانوں کی اس نرسری پر پابندی عائد ہونے کی وجہ سے ملک میں نئی اور پڑھی لکھی قیادت کا فقدان پیدا ہوگیا اور پڑھے لکھے سیاست دانوں کا بھی آہستہ آہستہ خاتمہ ہوتا جارہا ہے، ملک میں اس وقت موروثی سیاست رائج ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں اعتزاز احسن جیسے سینئر لوگ موجو ہیں لیکن محترمہ کی شہادت کے بعد قیادت پہلے آصف زرداری کے حصے میں آئی اور اب ان ہی کے بیٹے بلاول قائد ہیں، مسلم لیگ ن کی قیادت بھی نواز شریف کی نا اہلی و بیماری کے بعد شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز کے گرد گھوم رہی ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے بھی اپنا نائب اپنے ہی بیٹے ایمل ولی کو چنا حتیٰ کے جمیعت علما اسلام جیسی اسلامی جمہوری جماعت میں بھی مولانا فضل الرحمان کے بھائی اور بیٹے ہی ان کے جانشین نظر آ رہے ہیں۔

حال ہی میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی طلبہ تنظیموں نے یونینز پر پابندی کے خاتمے اور طلبہ سیاست کے حق میں ایک فیسٹیول میں نعرے لگائے اور یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد مذہبی طبقے اور سرخوں کے درمیان سوشل میڈیا پر ایک جنگ چھڑ گئی۔ بائیں بازو والوں کا کہنا تھا کہ ایشیا سرخ ہے جبکہ دائیں بازو کی تنظیموں کے چاہنے والے ان کی مخالفت کرتے رہے۔ بائیں بازو کی تنظیموں کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ ہم سیاست کرنے کا حق دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جمہوریت کو صحیح معنوں میں آگے لانا چاہتے ہیں۔ اس وقت جمہوریت اور سیاست صرف ایک طبقے تک محدود نظر آتی ہے اور ہم اسے اس طبقے سے چھین کر عوام تک لانا چاہتے ہیں جبکہ مذہبی طبقے کا کہنا یہ تھا اس تحریک کے آڑ میں اسلام مخالف پروپیگنڈا کیا جائے گا، پاکستان کی روایات کی دھجیاں اڑائی جائیں گی اور ایک بار پھر میرا جسم میری مرضی والے نظریہ کو پروان چڑھایا جائے گا۔

طلبہ تنظیموں کے حق میں آوازیں بلند ہونے کے بعد حکومتی وزرا ٹاک شوز میں یہ کہتے نظر آئے کہ طلبہ تنظیموں سے پابندی ہٹانے کے حق میں ہیں بعد ازاں وزیراعظم نے اپنے ٹویٹ میں بھی اس بات کا عندیہ دے دیا کہ ضابطہ بنانے کے بعد جلد طلبہ یونین سے پابندی ہٹا دی جائے گی۔ سندھ حکومت نے اس ٹویٹ کے بعد آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور مرتضیٰ وہاب نے اپنی پارٹی کی جانب سے سندھ میں طلبہ تنظیموں پر سے پابندی ہٹانے کا اعلان کردیا۔

یہاں ایک سوال ذہن میں ضرور جنم لیتا ہے کہ کیا یہ طے شدہ تھا؟ ایک بائیں بازو کے طلبہ کا گروہ ایک فیسٹیول میں نعرے لگاتا ہے پھر ایک دم وہ ویڈیو وائرل ہوتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے مارچ ہوتا ہے اور بغیر کسی مخالفت کے یہ پابندی ہٹ جاتی ہے؟ اگر یہ اتنا ہی ضروری تھا تو پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں ضیا الحق کی لگائی ہوئی پابندی کیوں نہ ہٹائی؟

ماضی میں جب طلبہ یونین پر پابندی تھی لیکن کسی حد تک تنظیمیں جامعات میں فعال تھیں، جامعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ونگ موجود نہ ہوتے تھے تو طلبہ تنظیموں میں آئے دن تصادم ہوتے تھے۔ نظریات کے اختلاف پر، یا کبھی صرف اس بات پر کے جس بنچ پر کسی اور تنظیم کی چاکنگ کی گئی ہے اس پر کسی اور کا کارکن کیوں بیٹھا؟ یا پھر میری دوست کی جانب کیوں دیکھا جیسی باتوں پر اسلحہ استعمال ہوتا تھا۔ ڈنڈوں اور پتھروں کا بے دریخ استعمال ہوتا تھا۔

کالج اور جامعات کئی کئی دن تک بند رہتے تھے تعلیمی عمل معطل رہتا تھا کیا اب پھر ایسا ہونے جارہا ہے؟ کیا اب پھر کراچی کی جامعات میں شام کی شفٹوں میں طالبات کی تعداد کم ہونے جارہی ہے؟ کیا اب پڑھے لکھے سیاست دان پیدا ہوں گے یا ایسے سیاست دان جو جامعہ میں کئی سال صرف اس لیے فیل ہوتا رہا کہ تنظیم کو میری ضرورت ہے یا مجھے تنظیم میں رہ کر بدمعاشی کی عادت ہوگئی ہے؟ کیا پھر اساتذہ کو کمروں میں بند کر کے پیٹنے کا وقت پھر آگیا ہے؟ یا مردوں کو عورت کے ماتحت کرنے کا وقت شروع ہو گیا ہے؟

طلبہ یونین کے ہونے سے کسی کو اختلاف نہیں۔ نہ ہی کسی کو ئی اس بات کا مخالف ہے کہ نوجوان سیاست میں آئیں لیکن ان یونینز کی آڑ میں ادارے سے باہر کام کرنے والی سیاسی تنظیمیں، جو در اندازی شروع کرتی ہیں، تعلیمی اداروں کے لیے تقصان دہ ہیں۔ جن کی وجہ سے تعلیمی اداروں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کو اس امر کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا اور اپنی کابینہ میں ڈھونڈ کر کوئی سمجھدار آدمی دیکھنا ہوگا جو اس کا ضابطہ طے کرے۔

اس بات کی بھی کوشش کرنی ہوگی ہے کہ طلبہ تنظیمیں اداروں سے باہر موجود سیاسی تنظیموں کے زیر اثر نہ ہوں۔ نہ ہی طلبہ تنظیموں کی آڑ میں اسلام مخالف ایجنڈے کو پروان چڑھایا جائے اور نہ ہی ڈنڈے کے زور پر اپنے عقائد منوائے جائیں۔ طلبہ تنظیموں کو نیا آئین و منشور بنانا ہوگا اور ان تنظیموں کا مقصد طلبہ کے حقوق کی بات کرنا اور مثبت سرگرمیوں کو پروان چڑھانا ہوگا۔ طلبہ سیاست کی وجہ سے ماضی میں کئی مائیں اپنے بیٹے کھو بیٹھیں۔ تنظیم کے بڑوں کے لئے وہ عظیم شہید ہوتے ہیں لیکن اس کی ماں کا حال خدا ہی جانتا ہے۔ سندھ و وفاق دونوں کو جائزہ لینا ہوگا کہ کہیں پھر وہی دور نہ لوٹ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).