لاڈلوں، لوٹوں اور دوغلوں میں فرق


فوج پیشہ وارانہ تربیت کے حامل مسلح افراد پر مشتمل منظم ادارے کا نام ہے۔ جس کی بنیادی ذمہ داری بیرونی جارحیت کے خلاف وطن عزیز کا دفاع کرنے جیسے حساس اور اہم ذمہ داری سرانجام دینا ہے، لہذا فوج اور عوام میں عقیدت اور محبت کا جذبہ ہی فوج کو وطن کی خاطر کٹ مرنے پر تیار کرتا ہے۔ دشمن ممالک کی یہ اولین کوشش ہوتی ہے کہ پراپیگنڈے کے ذریعے حریف افواج اور عوام کے درمیان شکوک و شبہات کی فضا پیدا کر کے ان میں نفرت کے بیج بوئے جائیں تاکہ ان کے درمیان تفریق پیدا کر کے افواج کے جذبہ شہادت کو کمزور کیا جائے۔

فوج کے آئنی کردار میں کسی اگر مگر کی گنجائش نہیں۔ ماضی میں جو کچھ بھی غلط ہوا اب اس باب کو بند کر دینا ہی بہتر ہے۔ آرٹیکل 243 کے تحت مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول وفاقی حکومت کو حاصل ہو گا جب کہ اختیار اعلی صدر پاکستان کے ہاتھ میں ہو گا جو اپنی صوابدید پر چیفس آف سٹاف کا تقرر کر ے گا۔ آئینی طور پر مسلح افواج نہ خارجہ پالیسی اور نہ ہی داخلی و معاشی پالیسیوں پر حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہے البتہ انہیں ملکی سلامتی کے امور پر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا حق ہے جب کہ آخری فیصلہ وفاقی حکومت کا ہی ہوتا ہے۔ اس میں فوج کی مداخلت کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی آئینی کردار ہے جس کی بنا پر اسے ہدف تنقید بنایا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان اور پے در پے مارشل لا کے نفاذ سے جہاں جمہوری عمل اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی منقطع ہوتا رہا وہاں عوام الناس یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوتے رہے کہ اگر فلاں مواقع پر فوج دخل اندازی نہ کرتی تو شاید حالات بہتر ہوتے۔ ان تمام تلخ حقائق کے باوجود فوج پر بحث کرنا ان کا ہی حق ہے جو ان کے آئینی حقوق و فرایض سے آگاہی رکھتے ہیں۔ اب جبکہ عمران حکومت کے ہاتھوں ایک اور نا اہلی کی صورت میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع جیسا سیدھا سادا معاملہ ایک عدالتی ایشو بن چکا ہے، جس کو حل کرنے کے لئے سپرئم کورٹ نے حکومت کو چھے ماہ کا وقت دیتے ہوئے آرمی چیف کو بھی چھے ماہ کی توسیع دے دی ہے۔

اب یہ حساس ایشو پارلیمنٹ اور حکومت نے مل کر آئینی طور پر حل کرنا ہے۔ لیکن فوج کے آئینی پہلوں پر وہ وہ حضرات علم و دانش تنقیدی مضامین لکھ رہے ہیں جنہوں نے کبھی آئین کی کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا ہو گا۔ تحقیق نہ جستجو علم نہ ادراک صرف ذاتی خیالات، مفروضات اور سنی سنائی باتوں کے سہارے پر مضامین کا ایک تانتا بندھ چکا ہے۔ ایسی لایعنی تحریروں سے فوج جیسے حساس اور اہم ادارے کا تقدس مجروع ہوتا ہے۔ ہمارے دشمن ملک تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو نقصان پہنچایا جائے۔

پاکستان چار مارشل لاء بھگت چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں آج تک عوام اپنی ترقی کی منازل کو ترس رہی ہے لیکن کسی فرد واحد کے ہوس اقتدار کو پورے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانا کوئی عقلمندی نہیں اور اگر اس طرح کے کمزور پہلو جمہوری حکومت اداروں میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو اسے بند دروازوں میں باہمی مشاورت اور قانون و آئین کے دائرے میں حل کرنا چاہیے۔ مارشل لاء کا سب سے بڑا نقصان آمر کی حکومت کی ہو س کو پورا کرنے والے سیاستدان ہیں جو ہر دور کے آمر کے ساتھ مل کر اسے بھی خوش کرتے ہیں اور بعد میں ہر جمہوری حکومت کا حصہ بھی رہتے ہیں۔

کیونکہ انہوں نے آمرانہ ڈنڈے کی طاقت سے حکومت بھی چلا رکھی ہوتی ہے اس لئے جب وہ کسی بھی جمہوری حکومت میں آتے ہیں وہ اپنے ان آمر حاکموں کے طرز حکومت کو نہیں بھولتے اور ان کے انداز میں ہی حکومت کرتے اور ان کو یاد کرتے نظر آتے ہیں جس سے جمہوری حکومت میں بہت سی دراڑیں خود بخود پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے بہت سے آج بھی عمران حکومت کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ اور اگران میں سے کوئی اپوزیشن میں بیٹھا ہو تو اس کا شیخ رشید کی طرح حکومت کے بارے میں یہ بیان ہوتا ہے کہ ”مہربان موجودہ حکومت کو لا کر خودپریشان ہیں، جلد چھٹکارا دلائیں“۔

سیاستدانوں اور اداروں کی عزت خود ان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ معرکہ کارگل کے دوران سول و عسکری قیادت میں اتفاق اور انفارمیشن کی کمی دیکھی گئی، فاصلے بڑھ گئے اور جب فاصلے بڑھتے ہیں تو غلط فہمیاں بھی بڑھ جاتی ہیں، پھر وہ بھی سنائی دیتا ہے جو کہا بھی نہیں جاتا۔ مشرف کہتے رہے کہ انہوں نے نواز شریف کو اس کے بارے میں پیشگی اطلاع دی تھی جبکہ نواز شریف کا یہ موقف آج تک ہے کہ فوج کی یہ کارروائی حکومت کی اجازت کے بغیر اپنے طور پر کی ہے۔ دوسری طرف بھارت نے امریکا اور یورپ میں پورے صفحے کے اشتہارات شائع کرائے جن میں پاک فوج کو ”بدمعاش فوج“ قرار دیا گیا۔ اس قسم کے اشتہارات دیکھ کر کوئی بھی پاکستانی کیسے خوش ہو سکتا ہے، مگر پاکستان میں پراپیگنڈے کا تندور ہمیشہ گرم رہتا ہے۔

اب جبکہ فوج کے آئینی معاملات کو حل کرنے میں مزید آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں تو خدارا ایسے دوغلے سیاستدانوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے چو منہ بھر کے میڈیا پر کہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں سیاستدان جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار سے سیاستدان بن کر نکلا ہے۔ بات سچ ہے یا جھوٹ، کیا ایسے بیانات سے فوج کا کردار مجروح نہیں ہوتا۔ ڈان لیکس کا معاملہ تو بند کمرے میں ہوا تھا جس پر میڈیا کی زینت بنانے کے الزام میں سزا بھی دی گئی، مگر یہاں تو آئے روز ڈان لیکس سے بڑھ کر فوج کی توہین کی جاتی ہے مگر وہ قابل گرفت صرف اس لئے نہیں ہوتے کیونکہ وہ ان ہی کے لاڈلے ہوتے ہیں، اور کہا جاتا ہے کہ ان کی نیت صاف ہے۔

لاڈلوں، لوٹوں اور دوغلوں میں فرق ہوتا ہے۔ بچپن میں سنا تھا کہ نیتوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے مگر ہمارے ادارے اتنے ”سپر اہل“ کب سے ہو گئے کہ انہیں لوگوں کی نیتوں کا بھی ادراک ہونا شروع ہو گیا؟ فوج ایک بہت ہی مقدس اور ذمہ دار ادارہ ہے، خدارا جمہوری حکومت کے ہر ادارے کو اپنا اپنا کام اپنے آئینی اختیارات کے اندر رہ کر ہی کرنے دیں، اور جو کام اللہ کے ہیں وہ اللہ کو کرنے دو۔ مت بھولیں کہ انسان کا انسان ہونا ہی اللہ کو پیارا لگتا ہے جو بڑے اعزاز اور شرف کی بات ہے۔ شداد، فرعون اور نمرود بھی انسان ہوتے ہوئے خدا بننے چلے تھے۔ اللہ نے رہتی دنیا تک انہیں نشان عبرت بنا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).