فیض کے مجاوروں کے لیے


حال ہی میں ایک وڈیو نے سماجی میڈیا پر بڑی دھوم مچائی۔ ایک ننھی سی اشتراکن پری ”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ بڑے جذبے سے گا رہی ہیں پھر ”سرخ ہوگا سرخ ہوگا ایشیاء سرخ ہوگا کے نعرے بلند ہوتے ہیں“ معلوم ہوا کہ یہ ویڈیو پانچویں فیض فیسٹول کی ہے۔ مبارک! مبارک! سلامت! سلامت! ۔ آج کل یہ ویڈیو سانڈے کے تیل سے زیادہ مشہور ہے۔ ویسے تو یہ نظم کسی بسمل نیم بسمل شاعر کی تھی مگر عرس فیض صاحب کا تھا تو ہم اپنا تبریٰ فیض صاحب سے ہی شروع کرلیتے ہیں؟

فیض پر اکثر ہمارے ملک میں بڑی جعلی علمیت بگھاری جاتی ہے۔ حد سے زیادہ ادبی بننے کے شوقین لوگ فیض کو فیس پاوڈر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہ محبتی لوگ لہک لہک کہ کہتے ہیں کہ فیض صاحب سے دنیا میں کہیں ہونے والا ظلم برداشت نہیں ہوتا تھا۔ وہ انسانیت کے پیغمبر تھے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ ویسے یہ بین الاقوامی فیض فیسٹول کی پانچویں قسط تھی یعنی یہ مجاوروں کا میلہ کئی مرتبہ سج چکا۔ پچھلے سال تو جب فیض فیسٹول ہوا تھا تو ساتھ کیفی اعظمی صاحب کا بھی تڑکا لگایا گیا تھا۔ اور بھارت سے محترم جاوید اختر صاحب اور محترمہ شبانہ اعظمی صاحبہ تشریف لائے تھے اور فیض اور کیفی اعظمی کے مجاورین نے فیض اینڈ اعظمی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ راقم کو فیض کے حوالے سے ان کے مجاورین کے سامنے چند معروضات پیش کرنے ہیں۔

فیض بڑے پکے اشتراکی تھے۔ وہ تو اس قدر اشتراکی تھے کہ ہندوستان و پاکستان میں اشتراکی انقلاب لانے کے لئے جان دینے پر تیار ہونے کا دعویٰ بار بار کیا کرتے تھے۔ انہوں نے تو رائل برٹش انڈین آرمی محض اس لیے جوائن کر لی تھی کہ ان کے فکری قبیلے یعنی روس پر نازی جرمنی نے حملہ کر دیا تھا اور وہ جرمنی سے لڑ کر اپنے قبلہ محبت کا دفاع کرنا چاہتے تھے۔ وہ مرتے دم تک اپنے پیارے روس اور اشتراکیت کے ترانے گاتے ہی رہے۔

پھر خیر سے وہ روس جا کر لینن امن ایوارڈ بھی لے آئے تھے مگر پاکستان اور بھارت دونوں ہی ملکوں میں ترقی پسندوں کی دال کچھ خاص گلی نہیں۔ بھارت میں پھر بھی اشتراکیوں کو بنگال وغیرہ میں تو کامیابی ملی۔ پھر کانگریس بھی تھوڑا مارکسی چولا اوڑھے ہوئے تھی مگر پاکستان میں بس اشتراکیوں کی کامیابی (اگر اسے کامیابی کہا جا سکتا ہے ) تو بھٹو کا اقتدار ہے مگر ظاہر ہے کہ بھٹو بھی دکھاوے کی حد تک ہی اشتراکی تھے۔

مگر فیض کو اس نوع کی اشتراکیت کی طلب نہ تھی۔ فیض جس اشتراکیت کے طالب تھے وہ خالصتاً سوویت یونین کی ا شتراکیت تھی۔ ایسی اشتراکیت جس میں ذاتی جائیداد کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ جس میں سارے ادارے سرکار کے تھے۔ مگر یہ تو محض چند سرسری اور اوپری تفصیلات ہیں۔ اصل میں اشتراکیت ایک نظریہ ہے جو فلسفے کی اصطلاح میں جدلیاتی مادیت کہلاتا ہے۔ اس نظریے کی رو سے انسان ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ زمین و آسمان کا تو کوئی خالق نہیں بلکہ یہ سب خود بخود وجود میں آ گئے۔

اس نظریے کی رو سے مذہب انسان کی تخلیق ہے۔ اس لئے کہ انسان موت سے ڈرتا ہے اور وہ ایک آخرت کا تصور قائم کر کے موت کے خوف سے نکلنا چاہتا ہے۔ اشتراکیت کے نزدیک مذہب دراصل بادشاہوں کے کام آتا ہے۔ مذہبی طبقہ (یعنی ملّا، پنڈت، پادری وغیرہ) بادشاہ کا کام کرتا ہے کہ عوام کو ان کے حال میں مست رہنا سکھا دیاتا ہے۔ مارکس نے مذہب کو افیم قرار دیا تھا۔ اس کے بقول مذہب کی وجہ لوگ اس زندگی میں کم پر راضی ہو جاتے ہیں کہ عاقبت میں ان کو زیادہ مل جائے گا۔ اب ظاہر ہے کہ جب مذہب کو ہی دھوکا قرار دے دیا جاتا ہے تو اس سے متعلق سماجی قوانین، اخلاقیات اور سارے ہی تصورات غلط قرارپاتے ہیں۔

مارکس کے اور انگلنر کے نظریات سے جو انقلاب روس میں برپہ ہوا اس میں شاہی خاندان کو بڑی سفاکی سے قتل کیا گیا۔ پھر سارے ہی مذہبی طبقے کو مار ڈالا گیا۔ پھر سارے ہی امیر لوگوں کو چن چن کر مار ڈالا گیا۔ جس بھی شخص میں مذہب یا اس سے متعلق تہذیب کے اثرات بھی نظر آئے اسے قتل کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ لینن اور اسٹالن نے تقریباً چند سالوں میں محض روس کے جغرافیے میں اندازاً 2 کروڑ انسان مار ڈالے۔ کسانوں کو محض اس بات پر مار ڈالا گیا کہ انہوں نے کچھ پیسے بچا لئے تھے اور یہ سرمایہ داری دور کی عادت تھی۔

یہ خونی انقلاب جب چین میں آیا تو ماؤزے تنگ نے کروڑوں انسانوں کو مار دینا اپنی انقلابی ذمہ داری سمجھا۔ کمبوڈیا میں جب پال پاٹ کے ہاتھوں اشتراکی انقلاب آیا تو لوگوں کو زبردستی ان کے خاندانوں سے علیحدہ کر دیا گیا کہ خاندان میں رہنا بھی سرمایہ داری اور مذہب کی تہذیب کی نشانی ہے۔ چشمہ پہننے والوں کو بھی اس لئے گولی مار دی گئی کہ اب ملک کو ”زرعی اشتراکیت“ کے تجربے سے گزرنا تھا اور سب کو کاشت کار بننا تھا۔

ملک میں ہر نوع کے لوگوں کو پکڑ کر کھیتوں میں لے جایا گیا اور کاشت کاری کرائی جاتی۔ اس تجربے میں کمبوڈیا میں کم و بیش آدھی آبادی مر گئی۔ کچھ گولیوں سے مرے اور کچھ مشقت سے۔ چین میں ثقافتی انقلاب کے دوران قدیم ثقافت کے ہر نشان کو مٹا دیا گیا اور جدید تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام کیا گیا۔ مشرقی یورپ کے ملکوں میں اور لاؤس، میانمار اور افریقی اشتراکی ممالک میں اس اشتراکیت نے کیسے انسانی کھوپڑوں کے مینار بنائے اور کیسے ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کو اکھاڑ پھینکا، سب کتابوں میں لکھا ہے۔

اشتراکیت نے جو معاشرے خلق کیے ان میں ہر شہری کی زندگی ہر لمحہ حکومتوں کی نگرانی میں ہوتی۔ یہ جو ایجنسیوں کا جال ملکوں میں بچھ گیا ہے اور ہر شہری پر ریاستیں نظر رکھتی ہیں، یہ تجربہ اس سے ہزار گنا شدت سے اور سب سے پہلے اشتراکی روس میں ہی ہوا۔

روس سے ہی اشتراکیت کے عفریت کو زوال بھی ملا۔ 90 ء کی دہائی میں روس کے عوام نے اس ظالمانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا۔ ان سے قبل رومانیہ اور جرمنی کے مشرقی حصے نے اشتراکیت سے آزادی حاصل کی تھی۔ بس پھر روس ٹوٹا اور دنیا جہان میں اشتراکیت کے تخت اکھاڑے گئے۔ آج دنیا میں محض پانچ ملک خود کو اشتراکی کہتے ہیں۔ چین، ویت نام، لاؤس، کیوبا اور شمالی کوریا۔ ان تمام میں محض شمالی کوریا ہی حقیقی معنوں میں اب تک اشتراکی ہے، اس پوری تفصیل کے بعد اندازہ لگائیے کہ اگرفیض کا انقلاب ہمارے وطن میں آ جاتا تو ہم شمالی کوریا ہوتے بلکہ اس سے بھی بدتر۔

ہمارے وطن میں کروڑوں انسان محض اس لئے مار ڈالے جاتے کہ وہ مذہب پر یقین رکھتے ہیں، وہ سرمایہ جمع کرتے ہیں یا وہ ذاتی جائیداد پر یقین رکھتے ہیں۔ فیض جس انقلاب کے خواب دیکھتے تھے اس کی خوفناکی کے آگے تو داعش بھی محض چھوٹاسا بچہ ہے۔ وہ ایسا خوفناک نظام تھا کہ جس کی لگائی پابندیوں کے آگے تو سعودی عرب کی پابندیاں بھی بچکانہ ہیں۔

فیض کے مجاور بھی یہ بات جانتے ہیں کہ دنیا اشتراکیت کو مسترد کر چکی اور اس بھیانک نظام کا اب تاریخ عالم میں کوئی مستقبل نہیں۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ فیض کون سا بھیانک نظام لانا چاہتے تھے اور فیض آج کل کے سب سے بڑے منتر یعنی ”جمہوریت“ کے کتنے بڑے دشمن تھے۔ مگر یہ مجاور اپنی منافقت اور جھوٹ سے حقیقی فیض کو چھپا دینا چاہتے ہیں۔ وہ ایک جعلی فیض دنیا کو بیچ رہے ہیں۔ فیض اشتراکی تھے۔ کیا یہ کو ئی راز ہے؟

فیض کے نظریات لائق تحسین نہیں بلکہ اس لائق ہیں کہ ان پر اور ان کے مجاوروں پر ہنسا جائے کیونکہ ان کی سعی اور انقلاب ناکام ہوا اور آج ان کے مجاور بالکل سرمایہ پرستوں کی زندگی گزارتے ہیں اور پھر فیسٹول سجا کر فیض کو بیچنے بازار میں نکل آتے ہیں۔ ان کا انقلاب ناکام ہو چکا۔ لیفٹ ختم، اس کا انقلاب ختم، اس کی سیاست ختم، اس کا ”ترقی پسند“ ادب ختم۔ جو باقی ہے سو ہے دکانداری۔ پھر چاہے پروڈکٹ ویاگرا ہو یا فیض، کیا فرق پڑتا ہے؟

”سرخ ہوگا سرخ ہوگا ایشیاء سرخ ہو گا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).