ملک ریاض اور نواز شریف کی جائیدادیں


کیا کبھی آپ نے کسی ایسے شخص کی حالت دیکھی ہے کہ جو کوئی بہت بڑی خوشی ملنے پر زندگی سے بھرپور زوردار قہقہہ لگانا چاہے مگر اسی لمحے کسی ان جانے خوف یا وضع احتیاط کی وجہ سے وہ قہقہ حلق میں بے بسی کی چیخ بن جائے؟ مسرت بے پایاں کی وجہ سے جس کا والہانہ رقص مرگ انبوہ کے ماتم میں بدل جائے؟ جو ایک دنیا کو چیخ چیخ کر اپنی شاندار کامیابی کے بارے میں بتانا چاہے مگر اس کی خوشی کی چیخ سینے میں فریاد کا تیر بن کر کھب جائے؟

جو اپنی زندگی کی سب سے بڑی شادمانی پر کھل کر ہنسنا چاہیے مگر اچانک کسی غیر مرئی طاقت کے زیر اثر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جائے؟ فتح کا جشن طرب اچانک مرگ ناگہانی میں تبدیل ہو جائے تو اس کیفیت کو کیا کہیں گے؟ شادی دفعتاً شادیٕٕ مرگ میں ڈھل جائے تو اس ستم ظریفی کو کیا نام دیں گے؟ دلہن کا آنچل کفن، حجلہٕ عروسی کے شاداب پھول جوان لاشے پر ڈالنے پڑ جائیں تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ کل سے کرپشن کے خلاف بائیس سالہ طویل جدوجہد والی ہماری پیاری حکومت کا بھی کچھ یہی حال ہے۔

لندن میں این سی اے نے رئیل سٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کی اربوں روپے کی جائداد پکڑی ہے جو پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے وہاں پہنچنے والے پیسے سے بنائی گئی تھی۔ ملک ریاض نے ان جائدادوں کی ضبطی کے ڈر سے این سی اے سے پری باگین کیا اور 38 ارب روپے سے زائد جرمانہ بھر کے ان کو بچا لیا۔ یہ تو خبر کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو کرپشن اور طاقتور کے خلاف کی جانے والی بائیس سالہ جدوجہد والی حکومت کی بے بسی اور بے کسی ہے۔

اگرچہ اس سب کارروائی کے پیچھے پاکستانی حکومت کا اتنا ہی کردار ہے جتنا مملکت خداداد کو مدنی ریاست بنانے کی کاوشوں کے ضمن میں ہے یا کشمیر کی آزادی کے لیے ٹرمپ کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کا ہے تاہم اس حکومت کی عادت ہے کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے کے مصداق اس حکومت میں ملنے والی معمولی کامیابی کو بھی ڈھٹائی سے اپنے کھاتے میں ڈالتی آئی ہے۔ پچھلی حکومت میں شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل پر کیے جانے والے افتتاح اور تقریریں اس کا ثبو ت ہیں۔

مگر بیگانی شادی میں عبداللہ کی طرح دیوانہ بننے والی حکومت اتنی بڑی چوری پکڑے جانے پر اس کا سہرا اپنے سر لینا تو دور کی بات ہے، برطانیہ میں ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی سیٹلمنٹ کرنے والی ”شخصیت“ کا نام نامی بھی اپنے لبوں پر لانے کے لیے تیار نہیں۔ وزیر اعظم بھی حیران، لب بستہ اور دل گیر ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے اور شیر شاہ سوری والے لاٶڈ سپیکر بھی چپ ہیں۔ سب بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ بولیں تو الزام بغاوت اور چپ رہیں تو بے بسی کی تشہیر ہوتی ہے۔

میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا

میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی ہوتی ہے

ہمیں این سی اے کی سفاکی اور زہر ناکی پر بھی بہت دکھ ہوا۔ ظالموں نے ”تاریخ ساز“ کالم نگار جاوید چودھری کے کالم کی سیاہی بھی خشک نہیں ہونے دی جنہوں نے دو روز قبل ہی لکھا تھا کہ ملک ریاض نے اپنے کاروبار میں اللہ تعالی کو شراکت دار بنایا ہے اس لیے ان کا کوئی بد خواہ بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اللہ کے ساتھ شراکت داری کا یہی معیار ہے تو جگا ڈاکو اور سلطانہ ڈاکو ان صاحب سے بہت بڑے اور دیالو تھے جو کم از کم غریبوں کے بجائے امرا کو لوٹ کر غربا میں تقسیم کرتے تھے۔ ملک صاحب اور ان کی پردہ دار ٹیم نے اس کے برعکس کیا۔

حکومت کی بے خود ی بے سبب نہیں کیونکہ اس سارے قضیے میں کچھ بے حد ”کمزور“ اور ”مسکین“ قسم کے لوگوں کے نام آتے ہیں۔ جن کے ذکر سے طائر لاہوتی کی پرواز میں کوتاہی آ سکتی ہے۔ یہ تو اس رقم کا عشر عشیر بھی نہیں جو ملک صاحب اور ان کے نیک سیرت، پارسا، محب وطن اور دیالو شراکت دار باہر بھجوا چکے ہیں۔ چلیں اس واقعے سے ایک اور بات تو ساتویں آٹھویں بار واضح ہو گئی ہے کہ نواز شریف فیملی کی لندن والی جائدادیں حلال کے پیسوں سے خرید ی گئی ہیں۔ یا ممکن ہے ہمارے تگڑے اور طاقتور مافیا نے برطانیہ کے اداروں کو بھی خرید لیا ہو! ملک صاحب کے شراکت دار کا تو ہمیں جاوید چودھری نے بتا دیا ہے۔ کیا ملک صاحب تھوڑی سی ہمت کر کے اپنے شریک جرم پردہ داروں کے نام بھی اگلیں گے تاکہ قوم کو یہ تو پتہ چلے کہ ہمارا حقیقی اور طاقتور کرپٹ اور مجرم کون ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).