معصومیت کا مول 20 روپے


بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات خطرناک حد بڑھ رہے ہیں۔ واقعہ ہوجاتا ہے، سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ قاتل کو گرفتار کر کہ کڑی سے کڑی سزا کے مطالبات زور پکڑنے لگتے ہیں۔ لیکن وجوہات پر کوئی بات نہیں پڑتا۔ پیڈوفلیا ایک حقیقت ہے ایک ایسا محلق ذہنی عارضہ ہے جس کا مریض معاشرے کے لئے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ اس میں والدین کی کافی بے احتیاتی بھی ہے۔ اور حکومت تو ویسے بھی ہماری اس بات پر کبھی غور نہیں کرے گی۔ نا کوئی قانون سازی ممکن ہے کیوں کہ ہماری قانون ساز اسمبلی میں معاشرے کے لئے نہیں شخصیات کے لئے قانون سازی ہوتی رہی ہے۔

دو دن پہلے سندھ کے ضلعہ ٹھٹہ کے چھوٹے شہر ”ور“ میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا، سات سال معصوم بچی دعا ولاسیو کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کہ کیلے کے باغ میں لاش پھینک دی گئی تھی۔ پولیس نے ابتدائی طور پر کارروائی کرتے ہوئے جوابدر سکندر عرف سکو شاہ کو گرفتار کیا اس کی نشاندہی پر دعا کے چچا ارشد کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد دونوں ملزموں کی نشاندہی پر دعا کے کپڑے بھی پولیس کو مل گئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں ملزم عادی نشئی ہیں، اور ملکر ایسا گھناؤنا جرم کیا ہے پولیس نے یہ دعوی بھی کی ہے کہ دونوں ملزموں نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔ پولیس نے جوابداروں کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ جب کے بچی اور ملزموں کے سیمپل ڈی این اے کے لئے بھیج دیے گئے ہیں۔

پولیس کے مطابق ملزم ارشد ملاح جوکہ مقتول معصوم بچی کا چچا ہے جس نے 20 رپیہ خرچی دے کر بچی کو کہا کے کیلے باغ سے کیلے لے کر آتے ہیں جہاں موجود دوسرے ملزم سکندر عرف سکو شاہ نے ملکر معصوم بچی دعا کے ساتھ جنسی زیادتی کرکے اسے قتل کردیا۔

تھانہ گھوڑاباڑی پر مقدمہ درج کردیا گیا ہے مزید تفتیش جاری ہے۔

یہ ایک ایسا واقعی یے جس کو سن کر آپ کو ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ پرندے بھی ایسے گھونسلے بناتے ہیں جس میں بچے محفوظ رہیں۔ اگر ایک پرندہ دانہ لینے جاتا ہے تو دوسرا چوکیداری کرتا ہے۔ لیکن ہم اپنے بچوں کی نقل و حمل پر نظر نہیں رکھتے۔ وحشت رشتے نہیں دیکھتی نا ہی اس میں احساس ہوتا ہے۔ پاگل پنے میں مبتلا وحشی درندوں کو معصومیت کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔

آپ اپنے بچوں کی ضروریات سے ناواقف نا ہوں، اگر آپ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری نہیں کریں گے تو باہر ایسے شاہینگ ان کی ضروریات جیب میں لے کر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر آپ کی ننھی جان کی قیمت صرف بیس روپے لگتی ہے۔ یہ سماج کا ایک ایسی شکل پکڑ رہا ہے اب جاگنا ہوگا، صاحب اولاد لوگ کھلانے پلانے کے ساتھ بچوں کی چوکیداری بھی لازمی کریں۔

والدین آج کل بچوں کے ساتھ بڑی بے احتیاطی برت رہے ہیں۔ اس قسم کا ایک اور وقعہ جو راولپنڈی میں ہوا ہے۔ ایسے واقعات میں ریاست کی خاموشی آخر ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ جب کبھی ایسے واقعات ہوتے ہیں ہم دھڑا دھڑ ایک ڈیمانڈ کرتے ہیں، قاتل کو چوک پر پھانسی دی جائے وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں سیریس ہوکر ان معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ پیڈوفلیا ایک حقیقت بن چکی ہے حکومت پیڈوفلیا کیسز کے بارے میں سیریس ایکشن لے اور اس مرض کے لئے ڈاکٹرز کی ٹیمیں پاکستان آئیں اور ایسے سیمینار کروائے جائیں اور ایسے مشکوک افراد کو گرفتار کر کہ ان کا علاج کیا جائے۔

ہمیں اب اس چیز سے نکلنا ہوگا۔ اگر پیڈوفلیا واقعی اس ملک میں انتہا حد تک پہنچ چکی ہے تو اس کے محرکات جانچنا ہوں گے۔ ایسے اڈے جہاں ایسے مریض پیدا ہونے کا خدشہ ہے وہ بند کرنے ہوں گے۔ پیڈوفلیا ایک نفسیاتی عارضہ ہے نفسیاتی مریض کو آپ چوک پر پھانسی دیں یا چوراہے پر گولیاں ماریں اس سے مرض کم نہیں ہوگا۔ مریض مارنے سے مرض کم نہیں ہوگا مرض کی جڑ ختم کرنا ہوگی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان چیزوں پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ ہمیں اب سوچنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).