انتظار امید ہوتا ہے


مولانا فضل الرحمٰن اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ طمطراق سے آئے اور کسی شعبدہ باز کے برعکس ایک اچھے سیاستدان کی طرح ”مبارک ہو، مبارک ہو“ کا غلغلہ بلند کیے بغیر بردباری سے پلان بی کا اعلان کرکے اپنے کارکنوں کو کچھ روز کچھ مقامات پر مصروف رکھنے کا جھکاؤ دے کر سیاست کرنے چلے گئے۔ ملاقاتیں، بیانات اور امید بر آنے کے منتظر رہنے کی تلقین کرتے ہوئے۔

میاں نواز شریف صاحب کی Platelets کم ہوئیں۔ ہسپتال منتقل ہوئے۔ سرکاری میڈیکل کمیشن بیٹھا۔ شوکت خانم کے ڈاکٹر کو نگرانی اور تصدیق کے لیے بھیجا گیا۔ معاملہ عدالت تک میں چلا گیا۔ میاں ‌صاحب لندن پہنچ گئے تب کہیں جا کر وزیراعظم عمران خان نیازی صاحب کو معلوم ہوا کہ انہوں نے Platelets نام کی ایک نئی چیز پہلی بار سنی اگرچہ انہوں نے ”ہم نے سنی“ بولا۔ لکھنوی یا دہلوی تو نیازی ہوتے نہیں کہ اپنی ذات کے لیے ہم بولیں، اس لیے انہوں نے حسب عادت اپنی غلطی سب کے نام موسوم کر دی۔

فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع یعنی ایکسٹینشن عدالت میں چیلنج ہوئی۔ چیلنج کرنے والے صاحب بھاگ گئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے معاملہ خود آگے بڑھایا تو بار بار لکھے جانے والی تحاریر بالآخر آرمی چیف کے خود پی ایم ہاؤس پہنچنے کے بعد اس لائق کہلائی کہ عدالت نے گیند چھ ماہ کے لیے پارلیمان کی جانب لڑھکا دی۔

چھ ماہ میں نوک پہ کھڑے پتھر کی مانند حکومت کو یہ قانون درست کرکے منظور کرنا ہے اور ملک میں پانی سے پتلی ہوتی معیشت کو بھی سہارا دینے کے جتن کرنا ہیں مگر نجانے کیا سوجھی کہ منفرد نام اور مختلف خاندانی سابقہ والی خوش گل تانیہ ایدروس کو جہانگیر ترین صاحب نے گوگل کے دفاتر سے دریافت کرکے بازیاب کیا اور پی ایم کے حضور پیش کر دیا کہ یہ خاتون ملک کو ڈیجیٹل کر دینے کا ٹھانے ہوئی ہیں۔

وزیراعظم جیسے خوش خلق اور خوش فہم فرد کو اور کیا چاہیے تھا تاکہ لوگوں کی توجہ عام اور اہم معاملات سے ہٹائی جائے۔ جھٹ سے نہ صرف مان گئے بلکہ تمام افسران و معززین کرام کو اکٹھا کرکے تانیہ ایدروس بی بی کو ”گھبرانا نہیں“ کا درس دیا، اس منتر کی کجی اور خام پن پہ خود ہی مسکرائے بھی اور اس ملک کو جہاں تعلیم نام کو نہیں۔ جہاں کے دیہاتوں میں آج بھی لوگ جوتی ہاتھ میں لے کر چلتے ہیں تاکہ گھس نہ جائے، جہاں اکثر مقامات پر پینے کا صاف پانی نہیں اور جہاں کے ہسپتالوں میں خدانخواستہ بیمار پڑ کر وہاں کام کرنے والے ڈاکٹر خود ڈرتے ہیں کیونکہ کوئی حال نہیں۔ جہاں گل سما نام کی کمسن بچی کو کاری کرکے سنگسار کیا جاتا ہے اور قبر تک کو پھانسی دی جاتی ہے، ڈیجیٹل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

اول تو خدشہ ہے کہ تانیہ ایدروس بی بی خود ہی گھبرا کے بھاگ جائیں گی اور اگر انہوں نے ترین صاحب کی مسلسل ”حوصلہ افزائی“ کے جذبہ تلے یہ خواب پورا کر بھی دیا تو عرائض نویسوں کا دھندہ زوروں پر ہوگا۔ بہت سے ان پڑھ نوجوانوں کے بھاگ کھل جائیں گے کیونکہ اس طرح ای عرائض نویس سامنے آئیں گے مگر دیہاتی کچھ زیادہ ہی لٹنے لگیں گے۔

اپوزیشن کسی بھی معاملے کو آگے بڑھا نہیں پا رہی یا بڑھانا نہیں چاہتی یا جانتی ہے کہ بڑھا نہیں سکتی۔ وزیراعظم جرمنی و جاپان کی سرحدیں ملانے سے اب رات کو درختوں سے آکسیجن خارج کروانے تک پہنچ چکے ہیں لیکن اگر کچھ خارج نہیں ہو پا رہا تو اپوزیشن کی کارگردگی سے خارج نہیں ہو پارہا۔ اپوزیشن کرے بھی تو کیا کرے؟ ملک میں تمام ہی سیاسی پارٹیاں ایک فرد کے گرد گھومتی ہیں۔

میاں صاحبان ملک میں ہیں نہیں، زرداری صاحب بیمار بھی ہیں اور جھکنے سے انکاری بھی۔

لے دے کے اب فارن فنڈنگ کیس کے ”مثبت فیصلے“ پر تکیہ کیا جا رہا ہے۔ انتظار امید کے مترادف ہے اور امید پوری ہونے کا انتظار کرنا، خود سے کچھ نہ کرنے والوں کی عادت ہوا کرتی ہے۔

جو ملک چلا رہے ہیں انہوں نے اپنا کام کر ڈالا کہ ”کرپشن، کرپشن“ کا ڈھنڈورا پٹوا کر سیاستدانوں کو بدنام کر چکے۔ ایک نئے شخص کو سامنے لائے، سیاستدان ہونے کا ٹھپہ لگایا لیکن مال جینوئن نہیں تھا، انہیں یہ معلوم تھا یوں اس ایک سیاستدان کو اتنا تھو تھو کرکے عہدے سے اتارا جائے گا کہ آئندہ کوئی ”نوجوان“ چاہے وہ چھیاسٹھ برس کا ہی کیوں نہ ہو، سیاست دان بنائے جانے اور کرسی پہ بٹھائے جانے کی خواہش پالنے سے پیشتر سو بار نہیں کئی سو بار سوچے بلکہ بہتر ہوگا کہ نہ ہی سوچے۔

مگر پاکستان کے لوگ بھی کیا خوب ہیں۔ کسی کو اٹھانے پہ آئیں تو عرش پہ جا بٹھائیں اور گرانے پہ آئیں تو بڑے سے بڑے آمر کا پتہ پانی کر دیں۔ کسی کو نہ تو ایوب بھولے ہیں اور نہ پرویز مشرف کا نکالا جانا کچھ زیادہ دور کی بات ہے پھر اب تو ویسے ہی دال بٹنے لگی ہے سپریم کورٹ میں تماشا بنا آخری مقدمہ اس کا بیّن ثبوت ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).