باتیں ظفر اقبال مرزا کی… ہم نے زم کو دیکھا تھا


اردشیر کاؤس جی کے ہمراہ

ظفر اقبال مرزا کے سر سے والد کا سایہ اس وقت اٹھا جب وہ ایم اے کے رزلٹ کا انتظار کر رہے تھے۔ گھر کی ساری ذمہ داری ایک دم سے ان کے کندھوں پر آگئی۔ اس کڑے وقت میں والد کے ایک دوست مدد کو آئے اورانھیں ایم۔ اے کا رزلٹ آنے کے دو دن بعد اسٹیل مل میں ملازمت مل گئی۔ ایک سال بعد وہاں جاری دو نمبری سے تنگ آ کر نوکری چھوڑ دی۔ اب کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال نے ذہن پر دستک دی۔ تھوڑی سوچ بچار کے بعد صحافت سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

1962 ء میں سول اینڈ ملٹری گزٹ ”سے ان کی صحافتی اننگز کا آغاز ہوتا ہے۔ اس زمانے میں“ سول اینڈ ملٹری گزٹ ”آخری دموں پر تھا، چند ماہ تنخواہ نہ ملی تو“ پاکستان ٹائمز ”سے وابستہ ہو گئے۔ پہلے دو سال ریفرنس سیکشن میں کام کیا۔ کچھ عرصہ میگزین میں رہے، پھر اسپورٹس صفحے کے نگران بن گئے۔ 67 ء تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ اگلے تیرہ برس مرکزی نیوز ڈیسک پر سب ایڈیٹر رہے۔ بھٹوکی پھانسی کے بعد“ پاکستان ٹائمز ”میں حالات ایسے ہو گئے کہ ان کے لیے وہاں کام کرنا ممکن نہ رہا۔ مئی 79 ء میں اس ادارے کو خیر باد کہہ دیا۔

”پاکستان ٹائمز“ کے ساتھ ساتھ مظہر علی خان کے ”ویوپوائنٹ“ میں بھی کام کرتے رہے۔ حسین نقی کے ”پنجاب ٹائمز“ اور ”پنجاب پنچ“ سے بھی نسبت رہی۔ ان جریدوں میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی حکومت پر کڑی تنقید ہوتی۔ ایک دفعہ انھوں نے دفتر میں چپڑاسی بن کر حکومتی عتاب سے بچنے کی تدبیر کی۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ایک دن حسین نقی کی گرفتاری کے لیے چھاپہ پڑا تو سرکاری گماشتوں نے ان سے پوچھا کہ ”تم یہاں کیا کرتے ہو؟ “ ”بس جی کرنا کیا ہے، چپڑاسی ہوں۔ “ ان کا جواب تھا۔ پوچھا گیا ”حسین نقی کے علاوہ ادھر اور کون ہوتا ہے؟ “ اس پر بولے ”ایک تو ظفر اقبال مرزا ہے، بہت خطرناک اور اتھرا آدمی ہے اور کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہے۔ “ اس طریقے سے وہ سرکاری اہلکاروں کا جُل دینے میں کامیاب ٹھہرے، جس میں ان کی ذہانت کو دخل تو تھا ہی کچھ ان کے حلیے نے بھی مدد کی۔

حسین نقی کی زیر ادارت پنجابی روزنامہ ”سجن“ نکلا تو اس کے لیے بھی کام کیا۔ ”پاکستان ٹائمز“ میں ملازمت کے دوران معروف صحافی حمید شیخ سے تعلق استوار ہوا۔ حمید شیخ ”پاکستان ٹائمز“ میں لاہور کے بارے میں مضمون لکھتے تھے۔ چھپنے سے پہلے ان کے مضمون کا فائنل پروف دیکھنا، کچھ عرصہ ان کے ذمے رہا۔ ایک روز تحریر میں پروف کی ایک فاش غلطی رہ گئی۔ اگلے روزاخبار دیکھا تو انھیں غلطی کا پتا چل گیا، جس کی تادیب کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو گئے۔ دفتر گئے تو گیارہ بجے حمید شیخ کا بلاوا آ گیا۔ ان کے لیے خلافِ توقع چائے اور بسکٹ منگائے۔ باتیں بھی خوب ہوئیں لیکن اصل بات کی طرف حمید شیخ نے اشارہ تک نہ کیا۔ حالات سازگار پا کر وہ کمرے سے سٹکنے لگے تو حمید شیخ نے انھیں رُکنے کو کہا اور دراز سے punctuation کے بارے میں مشہور کتاب You Have a Point there نکال کر تحفتاً انھیں پیش کی تاکہ آئندہ غلطی کرنے سے بچ سکیں۔ منگنی کی انگوٹھی کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑی تو اس کا انتظام بھی حمید شیخ نے کیا۔ ظفر اقبال مرزا کی دانست میں، لاہور کے بارے میں جس عمدگی سے حمید شیخ نے لکھا، ان کے بعد کوئی اور نہ لکھ سکا۔

ہم نے ان سے پوچھا ”حمید شیخ کا بیٹا بھی تو لاہور کے بارے میں کالم لکھ رہا ہے۔ باپ بیٹے کے لکھے میں کس قدر فرق محسوس ہوتا ہے؟ “

کہنے لگے ”اس کے لکھے میں اور حمید شیخ کے لکھے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حمید شیخ پیدائشی لاہوری تھے اور اپنے کالم میں مستند باتیں بیان کرتے تھے، ان کا بیٹا تو کتابوں سے نقل مار کر اور اِدھر اُدھر سے معلومات حاصل کر کے جو جی میں آئے لکھ دیتا ہے۔ اس کا باپ سے کوئی مقابلہ نہیں۔ “

”پاکستان ٹائمز“ چھوڑنے کے بعد لاہور میں ”روز نامہ مسلم“ کے بیورو چیف کے طور پر کام کیا۔ 81 ء میں اے ٹی چودھری کے اصرار پر اسلام آباد جا کر ”مسلم“ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے۔ دو سال بعد اسلام آباد سے لاہور اس لیے مراجعت کی کہ ایک تو گھر یہاں تھا، دوسرے جو تنخواہ ملتی تھی، اس سے بیگانے شہر میں گزارا مشکل سے ہوتا تھا۔ لاہور آ کر ”ویو پوائنٹ“ سے نتھی ہو گئے۔ اس سے ملنے والے معاوضے سے پوری نہ پڑتی تھی، اس لیے 1983 ء میں ”ڈان“ لاہور کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے اور 2000 ء تک اس حیثیت میں کام کیا۔ 2000 ء سے 2006 ء تک ”ڈان“ لاہور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہے۔ کالم نویس کی حیثیت سے وابستگی بعد میں بھی جاری رہی۔

مظہر علی خان اور اے ٹی چودھری کے ساتھ انھیں کام کرنے کا موقع ملا، جس کو اپنی خوش قسمتی جانتے ہیں۔ ان ممتاز صحافیوں کے بارے میں ظفر اقبال مرزا نے اپنے تاثرات کچھ یوں بیان کیے :

”صحافت میں جو بھی کچھ میں نے حاصل کیا، اس کا مظہر علی خاں کو بہت زیادہ کریڈٹ جاتا ہے۔ ان کے میگزین“ ویوپوائنٹ ”کے آغاز ( 1975 ) سے اس کی بندش ( 1992 ) تک میں اس سے منسلک رہا۔ یہ میری زندگی کا اہم ترین دور ہے۔ یہاں میں نے جس قدر جان مار کر کام کیا، اس حساب سے مالی منفعت تو بہت کم ہوئی لیکن میں نے خان صاحب کی محبت میں یہاں کام کیا اور ان کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھا۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو انھوں نے میرے لیے ایک طرح سے شوق میں بدل دیا۔

مظہر علی خان آل راؤنڈر تھے اور صحافت سے متعلق ہر کام کو خوب جانتے تھے۔ اپنی تحریر کے معاملے میں بڑا دھیان رکھتے تھے۔ وہ نواب پیدا ہوئے تھے اور طرز تحریر میں بھی نواب تھے۔ چار چار دفعہ ان کے اداریے اور مضمون کا ڈرافٹ تیار ہوتا۔ اس پر بھی مطمئن نہ ہوتے اور فائنل ڈرافٹ پر بھی تصحیح کا عمل جاری رہتا۔ اس کے برعکس میں نے اے ٹی چودھری کو دیکھا۔ ایک بار جو لکھتے اس میں تبدیلی اور اضافہ کے قائل نہیں تھے۔ میں نے صحافت میں اے ٹی چودھری کی پیروی کی۔ اے ٹی چودھری سے گہرا تعلق رہا۔ لکھنے کے معاملے میں وہ میری حوصلہ افزائی نہ کرتے تو میں ممکن ہے تمام عمر سب ایڈیٹر ہی رہتا۔ ”

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3