باتیں ظفر اقبال مرزا کی… ہم نے زم کو دیکھا تھا


بچپن میں صبح سویرے اٹھتے اور گھر کے باہر بیٹھ کر بیتابی سے اخبار کا انتظار کرتے۔ انھیں اس عالمِ شوق میں دیکھ کر محلے کی ایک پاگل سی خاتون ان سے اکثر کہتی، ”پتر توں وڈا ہو کے اخباراں دا ڈاکٹر بنیں گا“ (بیٹا تم بڑے ہو کر اخباروں کے ڈاکٹر (مراد ایڈیٹر) بنو گے ) اس وقت تو انھوں نے اس بات کو مجذوب کی بڑ ہی جانا لیکن ایک مدت بعد جب ایڈیٹر بنے تو انھیں وہ خاتون اور اس کی کہی بات بہت یاد آئی۔

اخبار سب سے پہلے پڑھنے کی عادت اب تک چلی آ رہی ہے اور کوئی دوسرا ان سے پہلے اخبار پڑھنے کی جسارت کر لے تو برا مانتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کرکٹ میچ دیکھنے کے دوران کسی کے مُخل ہونے پر۔ ان کے خیال میں تازہ اخبار کی اپنی ایک خوشبو ہوتی ہے جسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو سب سے پہلے اخبار کھولتا ہے۔ ہم ذکر کر رہے ہیں انگریزی کے ممتاز صحافی ظفر اقبال مرزا کا جو zim کے نام سے زیادہ معروف ہیں۔ روز نامہ ڈان میں کاٹ دار کالموں کے حوالے سے تعارف پانے والے انہیں ”لاہوری“ کے قلمی نام سے بھی جانتے ہیں۔

ظفر اقبال مرزا نے زندگی اپنی شرائط پر بسر کی اور ترغیب و تحریص کے جال میں نہیں آئے۔ اس سے ان جیسے دیوانوں کو بہت سی مادی چیزوں سے محروم تو ہونا پڑتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسی داخلی طمانیت بھی میسر آتی ہے جس سے حرص و آز کے مارے ناآشنائے محض ہوتے ہیں۔

ظفر اقبال مرزا سے تحریروں کے ذریعے تعارف عرصے سے تھا لیکن اب ہمیں ان سے ملنے کا معاملہ درپیش تھا۔ دوسروں سے ان کے بارے میں سنا تو یہی سنا کہ وہ طبعاً اکل کھرے ہیں اور آسانی سے انٹرویو کے لیے پکڑائی نہیں دیں گے۔ یہ تو خیر ایک بات ہوئی، دوسرے یہ مسئلہ تھا کہ وہ صاحب فراش ہیں، اس لیے پروفائل کے لیے رابطہ کرنا غیر مناسب ہو گا۔ یہ تو ان کے ہفتہ وار انگریزی کالم ”Lahori ’s notebook“ نے ہماری مشکل آسان کی اور ہم نے سوچا، یہ حضرت اپنے روایتی رواں دواں اسلوب میں کالم لکھ رہے ہیں، اس سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ جسمانی ضعف ہو تو ہو لیکن ذہنی براقی بدستور قائم ہے جس کی گواہی ان کی تحریر سے مل رہی ہے۔

ایک روز ہم نے ہمت کر کے ان کے گھر فون کیا جو ان کی بیگم نے اٹھایا، ہم نے مدعا بیان کیا تو کہنے لگیں : ”میں مرزا صاحب سے پوچھ کر بتاتی ہوں۔ “ دو تین منٹ بعد انھوں نے یہ مژدہ سنایا کہ ظفر اقبال مرزا نے ہمیں پروفائل کے لیے اذن باریابی دے دیا ہے۔ دو روز بعد ہم ماڈل ٹاؤن میں پرانی وضع کے مکان میں ان سے ملنے پہنچے۔ ہماری ان سے ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی تھی جب انھیں تین دن بعد اپنے قدیمی مکان میں حیاتِ مستعار کے 65 برس گزارنے کے بعد شہر سے دور ایک نئی بستی میں شفٹ ہونا تھا۔ اس نقل مکانی سے وہ خوش نہیں تھے۔

ظفر اقبال مرزا کی بیوی کی معیت میں ہم ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہ بستر پر دراز ٹی وی پر پاکستان اور سری لنکا کے درمیان جاری ٹیسٹ میچ دیکھ رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر ہم نے جانا کہ کمر کے مہرے ہلنے سے وہ بستر سے لگے، فالج کے بعد ہاتھ سے لکھنا ممکن نہ رہا تو کالم بیوی کو املا کرانے لگے۔ بڑی مونچھیں جو کبھی ان کا ٹریڈ مارک تھیں، اب کسی قدر تراشیدہ ہیئت میں ہیں، اوربال جو ہمیشہ بڑھے ہوتے تھے وہ بھی اب مناسب انداز میں ترشے نظر آئے۔ لگی لپٹی بات کے تحریر اور تقریر دونوں میں کبھی قائل نہیں رہے۔ ہمارے ساتھ بات چیت شفاف ذہن، دبنگ لہجے اور ڈنکے کی چوٹ کی۔

سالہا سال ”لاہوری“ کے قلمی نام سے کالم لکھنے والے، ظفر اقبال مرزا نے لاہور میں 9 اگست 1936 ء کو آنکھ کھولی۔ والد، محمد اقبال مرزا ڈیپارٹمنٹ آف انڈسٹریز میں افسر تھے۔ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ اپنا بچپن انھیں رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ نانا اور دادا دونوں کے چہیتے تھے۔ نانا پولیس میں تھے اور امرتسر میں فرائض انجام دیتے۔ ہر ہفتے نواسے کو امرتسر بلا لیتے جہاں وہ ننھیال کی توجہ کا مرکز ہوتے۔ دادا بھی پوتے پر جان چھڑکتے۔ بچپن میں سویرے سویرے دادا کے لیے انڈا پراٹھا تیار ہو رہا ہوتا تو ان کے پاس جاتے جس پر دادا، پوتے کی غرض بھانپ کر سب سے پہلے انڈا پراٹھا اسی کو دیتے۔ بہت چھوٹی عمر میں نانا اور دادا کی شفقت سے محرومی کا انھیں قلق ہے۔

ان کے والد مزاجاً سخت گیر تھے۔ بیٹے کی کبھی پڑھائی میں عدم دلچسپی پر ٹھکائی ہوتی تو کبھی ننگے پاؤں چلنے پر شامت آ جاتی۔ مہربان ہوتے تو کھانے پینے کی چیزیں دلاتے، لیکن اس معاملے میں گڑبڑ یہ کرتے کہ جو چیز خود پسند ہوتی، اس کے بارے میں یہ قیاس کر لیتے کہ فرزندِ دلبند کو بھی پسند ہو گی۔ بیٹے کو مطالعہ کا چسکا ڈالنے کے لیے انھوں نے اسے تھرلر پڑھنے پر لگا دیا۔ تھرلر کی ایسی لت پڑی کہ اسٹینلے گارڈنر اور اگاتھا کرسٹی کو بہت شوق سے پڑھا۔ دھیرے دھیرے سنجیدہ ادب کی طرف مائل ہوئے۔

سینٹرل ماڈل اسکول سے 1952 ء میں میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ والد نے بیٹے کی مرضی کے خلاف اکنامکس اور شماریات کے مضامین دلائے جن سے انھیں چڑ تھی۔ 1960 ء میں گورنمنٹ کالج سے ایم اے شماریات کیا۔ اس زمانے میں سوشلزم کا غلغلہ تھا۔ سوشلسٹوں سے یارانہ خوب رہا لیکن اس نظریے پر ایمان نہ لائے۔ ان کے بقول ”جس زمانے میں کالج میں تھا، سوشلزم فیشن بن گیا تھا۔ مارکس کے پڑھنے والوں کو ہی پڑھا لکھا سمجھا جاتا۔ میں نے سوشلزم کو پڑھ کر رد کیا۔ سوشلزم کا اصل مقصد بتوں کو توڑنا تھا لیکن اس کے ماننے والوں نے نئے بت تراش لیے۔ مارکس اور لینن کے ذکر کے بغیر ان کی روٹی ہضم نہیں ہوتی تھی جبکہ اصل سوشلزم شخصیت پرستی کے خلاف تھا۔ سوویت یونین کی بنیاد غلط تھی، وہ امپیریل ازم کے غلط راستے پر چل نکلا، جس کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ میں ویسے بھی انقلاب کا قائل نہیں اور اس کو غیر فطری سمجھتا ہوں اور اس کے مقابل میں ارتقاء کا قائل ہوں۔ میں خود اگر دنیا میں آیا ہوں تو کسی انقلاب کے نتیجے میں تو نہیں آیا بلکہ ارتقاء اور بیالوجیکل عمل کے ذریعے سے آیا ہوں۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3