باتیں ظفر اقبال مرزا کی… ہم نے زم کو دیکھا تھا


حسین نقی سے ظفر اقبال مرزا کا اک عمر کا رشتہ ہے۔ حسین نقی کا تذکرہ بڑی محبت سے کیا۔ کہتے ہیں، حسین نقی کراچی سے لاہور آئے تو ان سے دوستی اور محبت کا رشتہ قائم ہو گیا۔ حسین نقی نے بھٹو کو پنجاب یونیورسٹی کے سیمینار میں جس جراتِ رندانہ سے مخاطب کیا، اس کا ذکر بھی کیا اور بھٹو سے حسین نقی کے ہمراہ اپنی ایک ملاقات کی روداد بھی بیان کی۔ ’ذوالفقار علی بھٹو جس زمانے میں پارٹی کی تنظیم نو کر رہے تھے تو ایک روز جب وہ فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے تھے، حسین نقی کا ان سے ملنے کا پروگرام تھا۔ وہ مجھے بھی بھٹو سے ملوانے اپنے ہمراہ لے گئے۔ دوران ملاقات حسین نقی نے سگریٹ پینا شروع کر دیا، راکھ جھاڑنے کے لیے ایش ٹرے کی ضرورت پڑی تو اس نے بھٹو کے قریب پڑا ایش ٹرے اپنی طرف کھسکا لیا، بھٹو نے اس پر نقی کی طرف ایسے دیکھا جیسے ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہو اور کہنا چاہ رہے ہو میری ایش ٹرے استعمال کرنے کی تمہیں جرات کیسے ہوئی۔ ملاقات کے بعد میں نے حسین نقی سے کہا، یہ بندہ ٹھیک نہیں، جو شخص اپنی ایش ٹرے نہیں دے سکتا، وہ عام آدمی کو کیا دے گا۔ ”

پاکستانی حکمرانوں میں لگتا ہے، انھیں سب سے زیادہ غصہ ذوالفقار علی بھٹو پر ہے، جس کی وجہ غالباً بھٹو کا توقعات پر پورا نہ اترنا ہے۔ ان کے خیال میں سیاست میں سنجیدگی ختم کرنے اور اس کا لیول نیچا کرنے کے ذمہ دار بھٹو ہیں۔ ان کی دانست میں بھٹو سے پہلے سیاست میں مخالفت تو ہوتی تھی لیکن حریفوں کی ذاتیات کو نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ بھٹو کو وہ نظریاتی سیاستدان ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں، بھٹو دور میں قوم، قوم نہ رہی اور رہی سہی کسر ضیاء الحق نے پوری کر دی، جس کی پالیسیوں کا عذاب ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے تو ان کی بیوی نے مداخلت کرتے ہوئے ہمیں بتایا ”یہ کسی زمانے میں بھٹو کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے اور جب وہ پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو مرزا صاحب نے بھٹو کو ووٹ ڈالنے پر اصرار کیا اور مجھ سے اس سلسلے میں قسم بھی لی کہ میں بھٹو کے علاوہ کسی اور کو ووٹ نہیں دوں گی۔ “

اے ٹی چودھری نے انھیں اداریہ نویس بنایا تو کالم لکھنے پر ”ڈان“ کے ایڈیٹر احمد علی خان نے قائل کیا۔ احمد علی خان کا ان کے دل میں بہت احترام تھا، اس لیے انھیں ٹال نہ سکے۔ دسمبر 78 ء میں ”ڈان ’‘ میں“ لاہوری کی نوٹ بُک ”کے عنوان سے کالم لکھنے کا آغاز کیا۔ ظفر اقبال مرزا نے اپنے کالموں کی کتاب“ The last man in ”کو احمد علی خان کے نام معنون کیا ہے۔ کہتے ہیں، پڑھنے سے زیادہ بی بی سی سن سن کر لکھنا سیکھا، جس کی وجہ سے ظفر اقبال مرزا کے خیال میں ان کی تحریری زبان انگریزی بول چال کی زبان ہے۔

سردو گرم چشیدہ صحافی کے خیال میں ”لفافہ جرنلزم ایوب دور میں شروع ہوئی۔ ایوب خان بڑے صحافیوں کو نوٹ لگاتا تھا، بعد والوں نے چھوٹے موٹے صحافیوں کو بھی گھاس ڈالنی شروع کر دی۔ بکنے کی مجھے کبھی پیشکش نہیں ہوئی، پیشکش انھیں ہی ہوتی ہے جو بکنے کے لیے تیار بیٹھے ہوں۔ “

پاکستان میں آزادی صحافت کے لحاظ سے انھیں ضیاء الحق کا دور بدترین جبکہ یحییٰ خان دور حکومت سب سے بہتر لگتا ہے۔ ان کے بقول ”یحییٰ خان کہتا تھا، جو جی میں آئے لکھو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ “ کہتے ہیں، حضرت علیؓ کا قول ہے ”یہ مت دیکھو، کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔ “ صحافت میں وہ اس قول پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

ان کی رائے میں موجودہ دور میں صحافی، صحافی کم اور سیاستدان زیادہ ہو گئے ہیں۔ پارٹی باز صحافی انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ میڈیا میں ان کے نزدیک، عام زندگی کی طرح پہلے تو لو پھر بولو کا اصول لاگو ہوتا ہے لیکن انھیں لگتا ہے جیسے زیادہ تر صحافی اپنا ترازو کہیں گنوا بیٹھے ہیں۔ ٹی وی اور ریڈیو پر بہت سے پروگراموں کے اسکرپٹ ان کے قلم سے نکلے۔ ظفر اقبال مرزا نے جی ایم سید کی تحریروں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔

کرکٹ کا جنون بچپن سے ان کی رگ و پے میں سمایا ہے۔ 1954 ء میں اوول میں کرکٹ ٹیم کی تاریخی فتح کو وہ نو عمری میں ملنے والی نمایاں خوشیوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ دوسری بڑی خوشی کا تعلق بھی کرکٹ سے ہے جس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ 1956 ء میں آسٹریلیا کی ٹیم نے کراچی میں ٹیسٹ کھیل کر ادھر سے واپس چلے جانا تھا اس ٹیم میں کیتھ ملر اور لنڈوال جیسے بڑے کھلاڑی شامل تھے، سٹیڈیم میں بیٹھ کر ان کا کھیل دیکھنے کے متمنی تھے۔ والد سے کراچی جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ مان گئے۔ دس دن کراچی میں رہے۔ میچ بھی دیکھا اور شہر بھی۔ نیوزی لینڈ ایسا ملک ہے جدھر جانے کی خواہش انھیں رہی، اس کی خاص وجہ وہاں کے لوگوں کا ملنسار ہونا بتاتے ہیں۔

ٹیسٹ کرکٹ کو کلاسیکی موسیقی اور ٹی ٹوئنٹی کو پاپ میوزک قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار قریبی دوست تھے۔ ظفر اقبال مرزا کی 1968 ء میں شادی ہوئی۔ ایک سال بعد بیٹا پیدا ہوا جو ان کی اکلوتی اولاد ہے۔ بیٹے کا نام دادا کے نام پر محمد اقبال مرزا رکھا۔ شریک حیات سے طبعاً بہت زیادہ مختلف ہیں لیکن اس کے باوجود ازدواجی تعلق اچھے طریقے سے نبھا، جس کا زیادہ کریڈٹ وہ اپنی اہلیہ کو دیتے ہیں اور ہمہ وقت خدمت کے لیے مستعد بیوی سے بہت خوش ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں، کہتے ہیں، اس سے مطمئن ہونا ہی پڑتا ہے، جس طور زندگی گزری دوبارہ ملنے پر وہ اسی ڈھب پر بسر کرنا چاہیں گے۔

(محترم محمود الحسن نے ظفر اقبال مرزا (مرحوم) سے ملاقات کی یہ روداد نومبر 2011 میں روزنامہ ایکسپریس کے لئے قلمبند کی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3