اساتذہ کی حالت زار


قارئین! گزشتہ دنوں مقامی چائے والے ہوٹل میں بیٹھ کے روزنامہ 92 نیوزکے دوسرے ادارتی صفحے میں شائع شدہ  ایک خاتون کا مراسلہ بہ عنوان ”اساتذہ کی حالت زار“ پڑھنے میں مگن تھا اور ساتھ میں چائے کی چُسکی لیناہی چاہی کہ پاس میں بیٹھے ایک قدآور شخص نے گرجدارآوازمیں کہاکہ بھائی جان کیاپڑھ رہے ہو! ذرا زور سے پڑھ کرہمیں بھی اس اخبار سے فیض اٹھانے کاموقع دو۔ جس کی فرمائش پرمیں نے سر ہلاتے ہوئے مزکورہ خاتون کانام لیکرمراسلہ پڑھنا شروع کرکے چند جملے ہی پڑھے  تھے کہ بیٹھے شخص نے عجلت پسندی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دقیانوسی ذہنی پسماندگی کوآشکارکیا اور معاشرے میں استاد و شاگرد کے حوالے سے حقائق کے برعکس بہت کچھ کہہ گئے۔

جس کے باعث بیان کردہ موضوع تکمیل کو پہنچے بنا قطع کی نظر ہوا۔ جس پرمیں نے صبر کے دامن کو تھامے حتی الامکان کوشش کے ساتھ اس کی اصلاح کرتے ہوئے زیرلب موضوع کے بارے میں اسے بہترطورپر آشنا کرایاکہ مزکورہ خاتون نے لکھا ہے کہ معاشرے میں اساتذہ کوصرف ایک تنخواہ دارانسان سمجھاجاتا ہے اور کلاس کے دوران اسکول کاہیڈ ماسٹر، ہیڈمسٹریس یامانیٹرنگ ٹیم بچوں کے سامنے استاد کوکھری کھری سناتے ہوئے ان کی عزت نفس کومجروح کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے۔ بچوں کی جانب سے اسکول نہ آنے کے باعث والدین کی غفلت کواساتذہ پرتھوپ کے انہیں زیرعتاب بھی لایاجاتا ہے۔

اساتذہ کو مہینے میں دوچھٹیوں کے علاوہ ایک دن کی چھٹی پربھی بے نقط  سنائی جاتی ہے کہ بات کومکمل سنے بناپاس بیٹھے شخص نے پھرسے عاجلانہ اندازمیں چھٹیوں پراساتذہ کوآڑھے ہاتھوں لے کر برس پڑے اور کہنے لگے کہ ایک سکول کے اساتذہ کی سالانہ ڈھائی مہینے کی چھٹیاں ہوتی ہیں جبکہ ہمارے 15 دن کی چھٹیاں ہوتی ہے کیونکہ مکالمہ باز ملازم ایک چھوٹا موٹا ملازم تھا۔ یہ سب سنتے ہی میراجی بہت دکھاکہ ہم اس احسان فراموش قوم سے ہیں کہ اپنے دل میں اساتذہ کے عالی مقام و مرتبہ کورکھنا بجائے ہمارا ذہن قوم کے معماروں کوبنانے والے یعنی استادکے لئے نفرت، عداوت، بغض، حسد و کینہ سے کوٹ کوٹ کربھراہواہے۔ حالانکہ استاد وہ ہوتاہے جوبچے کودنیاکی جہالتوں اور اندھیروں سے نکال کراجالے میں لے آتاہے۔ اس کی ذہنی آبیاری کرتے ہوئے دہقانیت سے نکال کرسائنسیت سے روشنا س کرانے کاتاج بھی اپنے اور کامیاب شاگردکے سرسجالیتاہے اور اسے تعلیم کے زیورسے آراستہ کراتے ہوئے اسے زمین اور سیاروں کی تحقیقیاتی علم سے لیس کرکے خلا تک کے سفرکے لئے کمربستہ کرتاہے۔ جوکہ یہ سب ایک عام اور عقل سلیم سے محروم آدمی کے بس کی بات نہیں لہٰذا ہر وہ معاشرہ جو استاد کواس کے صحیح مقام و مرتبہ کادرجہ دیتا ہے تو وہ ہی کامیابی اور ترقی کے منازل طے کرسکتا ہے۔

جس سے ہم معاشرے میں مثبت سوچ کوفروغ دے سکتے ہیں ناکہ ایک فورتھ کلاس کاملازم ہوکے اپنے آپ کواستاد سے موازنہ کرکے قوم کے سامنے ایک عظیم جرم کا مرتکب بنیں کیونکہ ایک عام آدمی اور استاد کے درمیان فرق کو کسی بھی پیمانے سے ناپنا ایک مشکل ترین کام ہوتاہے لہٰذا جب ہم خود کسی شخص کواس کے جاہ ومقام کی مناسبت سے عزت دیں گے تو ہی یہ تاثر گھر میں پھیل کر دوسروں کی عزت افزائی کا سبب بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).