عمران خان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں


آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر اپوزیشن سے رابطہ کمیٹی میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، پرویز خٹک شامل ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہیں۔ جبکہ پرویز خٹک عمران خان کی ترجمانی کے لیے کمیٹی کا حصہ ہیں۔ دو ایک کا تناسب خود بتاتا ہے کہ یہ ہدایات کہاں سے آئی ہوں گی کہ تمام اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں تا کہ سب کی باہمی مشاورت اور اتفاق و اتحاد سے بل پاس کرایا جائے۔ عمران خان جنہوں نے شروع دن سے اپوزیشن کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا ہے اب وہ کیسے ”حکم“ کے مطابق اپوزیشن کے ساتھ اس معاملے پر بیٹھتے ہیں۔

ایسے حالات میں تو لگتا ہے عمران خان اس کمیٹی کو درست سمت پر نہیں چلا پائیں گے اور اپنے اتحادیوں تک ہی اسے محدود رکھیں گے۔ شاہ محمود قریشی اس سلسلے میں ایم کیو ایم سے مل بھی چکے ہیں۔ حکومت کو اتحادیوں کے ساتھ اپوزیشن کے پاس جانا ضروری ہے، لیکن یہ کس منہ سے ان کے پاس جائیں گے، جبکہ انہوں نے شہباز شریف کی دوران تفتیش جائیداد ضبطگی کا حکم دے دیا ہے، خواجہ براداران کو قید میں انتہائی تنگ کر رکھا ہے، فواد حسن فواد کے کیس کی شنوائی عرصہ سے نہیں ہو رہی اور ان کو تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے، رانا ثنا ء اللہ پر منشیات کا الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں ان پر آمدن سے زائد اثاثے کا کیس بنایا جارہا پے، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کو بھی بغیر جرم کے قید کی سزا دی جا رہی ہے، خواجہ محمد آصف کو بھی دوبارہ شامل تفتیش کیا جا رہا ہے۔

سیاسی انتقام کے ماحول میں اپوزیشن کیسے حکومت کا ساتھ دے سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کیونکہ یہ فوجی قانون کا معاملہ ہے اس لیے تمام اپوزیشن سر کے بل چل کے آئے گی اور قانون کے حق میں فیصلہ دے گی۔ حالانکہ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی ایف، ن لیگ، پی پی پی، اور اے این پی نے پہلے سے ہی عمران خان کے خلاف مشترکہ محاذ کھول رکھا ہے۔ اے این پی اپنے سخت بیانئے پر سب سے آگے رہی، ان کا کہنا ہے کہ باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن لینی ہی نہیں چاہیے تھی۔

مولانا فضل الرحمن کہتے ر ہے کہ دسمبر میں عمران خان سے استعفی لیا جائے اور مارچ میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔ بلاول بھٹو فرماتے رہے کہ ہم نے کسی صورت تعاون نہیں کرنا، ترمیم تو ہر صورت میں ہونی ہی ہے لیکن اس کی آڑ میں ہم عمران خان کے ہاتھ مضبوط نہیں کر سکتے اس لئے پہلے عمران خان کی چھٹی کرائیں یا چھٹی ہو پھر بات ہو سکتی ہے۔ ن لیگ کو مقدمات میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ وہ اپنا موقف بھی صاف طریقے سے پیش کرنے سے قاصر ہیں ان کا کہنا ہے کہ جو ہمارا لیڈر نواز شریف ہمیں کہیں گے وہی ہمارا بیانیہ ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ یک دم اپوزیشن کا بیانیہ نہ جانے کیوں تبدیل ہو گیا ہے اب اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے، حالانکہ پہلے اے پی سی نے ان ہاؤس تبدیلی کا مطا لبہ مشترکہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔

عمران خان سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف ان کا متباد ل وزیر اعظم بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فضل الرحمن کے دھرنے میں میاں شہباز شریف نے تقریر میں بطور متبادل وزیر اعظم کے ہی فرمایا تھا کہ اگر ان کو موقع ملا تو وہ چھے مہینے میں تما م مسائل حل کر دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کو مزید الزامات میں گھیرا جا رہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ وہ جلد پاکستان واپس نہیں آنے والے، عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ میگا کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے سے کترائیں اور عمران خان کا بیانیہ طاقت پکڑے اور انہیں کرپٹ مافیا ظاہر کرنے میں کامیاب ہوں۔ نیب نے 15 انکوائریوں کی مزید منظوری دے دی ہے جن میں زیادہ تر ن لیگ سے متعلق ہیں۔ ن لیگ پر لگے الزامات کی ابھی تفتیش ہو رہی ہے عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں اس کے باوجود ان کی 23 جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔

پاکستانی سیاست کے الجھے ہوئے ماحول کو حکومت کیسے سنبھال پائے گی؟ اس کا جواب آنے والے چھے نہیں بلکہ دو یا تین مہینوں میں ہی مل جائے گا۔ عمران خان کے طرز حکمرانی کی طرف دیکھیں تو لگتا نہیں کہ وہ اتنے بڑے ایشو کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اپنی حکومت کے پندرہ ماہ انہوں نے اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات لگا کر اور بڑے بڑے ایشو کھڑے کر کے وقت گزارنے کی ہی کوشش کی ہے اور اب تو ان کے ہاتھ بہت بڑا ایشو لگ گیا ہے وہ کیسے چاہیں گے کہ یہ جلد از جلد حل ہو جائے۔

انہوں نے ایک طرف اپوزیشن کو مزید تنگ کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ دوسری طرف پارلیمان میں آرمی ایکٹ کا بل پیش کر کے کہا جائے گا کہ اپوزیشن ہمارا ساتھ نہیں دے رہی۔ اگر حکومت چاہے تو سادہ اکثریت سے ایک ہفتے کے اندر بل پاس کرا سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ عمران حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی چاہتی ہے کہ اس بل کو پاس کرانے میں جتنی دیر لگے اتنا ہی بہتر ہے، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے کام میں دیر لگائی گئی تو ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ٹجھنجھلاہٹ کا شکار ہو کراورعمران خان کی نا اہلی سے تنگ آ کر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے پر تیار ہو جائے۔ پھر ان کی معصومانہ ڈیمانڈز پوری کر کے ”جمہوری“ طریقے سے بل پاس کرا لے۔ فوج نے اپنے معاملات کے حل کے لئے چھے ماہ انتظار بھی نہیں کرنا۔ ہر معاملے میں عمران خان کی نااہلی قابل قبول ہے مگر یہاں غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

ان ہاؤس تبدیلی کا مطالبہ ن لیگ اس لئے بھی پیش کر رہی ہے کیونکہ لگتا ہے پیپلز پارٹی اورن لیگ جلد انتخابات کے لئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان اتنی جلدی نئے الیکشن کا متحمل ہو سکتاہے۔ سینٹ میں ان ہاؤس تبدیلی کا ڈراونا انجام بھی اپوزیشن کو اس عمل سے روکنے کا سبق دیتا ہے۔ اگر پھر بھی اپوزیشن پارٹیاں ان ہاؤس تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہیں تو یہ عمران خان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اس طرح کے مطالبات پاکستان میں بغیر امپائر کی انگلی کے نہیں کیے جاتے اور خاص کر جب امپائر خود بری طرح پھنس چکا ہو تو اپنا فیصلہ کرانے کے لئے اسے متبادل تھرڈ امپائر کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔

موجودہ سیاسی صورت حال میں حکومت کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ تھرڈ امپائر اپوزیشن کی جماعتیں ہیں جن میں ن لیگ اب بھی سب سے بڑی اور طاقتورجماعت ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تھرڈ امپائر کو اشارہ ہو گیا ہے اسی لئے لندن بیٹھے میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے تمام سینئر پارٹی رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس لندن میں منعقد کرایا گیاہے جبکہ ن لیگ کی سب سے جارحانہ سیاستدان مریم نواز پاکستان میں ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).