اور پھر کاکا کی پریشانی ہی ختم ہوگئی


کاکا سے میں پشاور میں ہفتے میں ایک بار ضرور ملتا ہوں۔ اب کی بار بھی انہوں نے فون کیا اور تحکمانہ انداز میں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ میں جیسے ہی پہنچا وہ ایک نجی ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے۔ ایک ہاتھ میں اپنا سر اور دوسرے ہاتھ میں ریموٹ پکڑے کچھ بہت ہی زیادہ پریشان لگ رہے تھے۔ میں بہت دیر تک کھڑا رہا۔ چینل بدل بدل کر وہ اکتا گئے تھے۔ تقریباً تمام چینلز پر سیاسی درجہ حرارت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔

کرسی میں بیٹھے انہوں نے جیسے ہی کروٹ بدلی مجھ پر نظریں پڑی اور چونک کر کھڑے ہوگئے۔ خوش آمدید بیٹا آجاؤ اندر۔ میں اندر گیا انہوں نے ٹی وی کی آواز بند کی اور ایک ٹھنڈی آہ بھری پتا نہیں اس ملک کا کیا بنے گا۔ مجھے شدید بھوک لگی تھی سوچا پہلے پیٹ کی پوجا کروں بعد میں دیکھا جائے گا ویسے بھی یہ کہانیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

کاکا تقریر جھاڑنے ہی والے تھے کہ میں نے روکا اور کھانے کی فرمائش کی جو معمول کی طرح فوراً پوری کردی گئی۔ کھانا لگ گیا اور ہم دونوں نے خوب سیر ہوکر کھایا وہ اور بات ہے کہ کاکا کھانے کے دوران بھی ملک کے لئے پریشان ہوتے رہے۔

کھانے کے بعد کاکا نے چائے منگوائی اور مجھ سے میرے دن کا معمول پوچھا۔ میں چونکہ صبح کا تھکا ہوا تھا اسی لئے خلاصہ بیان کیا لیکن کاکا بضد رہے اور مجھے اس وقت معاف کیا جب میں نے اپنے معمول کو زیر زبر کے ساتھ بیان کیا۔ چائے کے بعد دوبارہ ریموٹ کے بٹن دبائے گئے اور ایک بار پھر پاکستان کی حالت خراب ہونے لگی۔ ناگفتہ بہ حالت اور خطرناک پیشن گوئیوں کی ستم ظریفی ہمارے درمیان تناؤ پیدا کررہی تھی۔ اس سے پہلے کہ کاکا مزید سوال و جواب کے عذاب سے مجھے گزارتے میں نے ہی سوال داغا۔

کاکا آپ کو نیلام گھر یاد ہے جو پی ٹی وی پر نشر ہوتا تھا۔ سوال سنتے ہی کاکا کے چہرے پر ایک مسحور کن مسکراہٹ پھیل گئی اور اچانک ہی ٹی وی آف کرکے اختر انصاری کے شعر سے شروع ہوئے۔

یاد ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

مجھے یاد ہے بلکہ میں نے تو ایک دو بار اس پروگرام میں شرکت بھی کی ہے بلکہ میں تو طارق عزیز صاحب سے ملا بھی ہوں۔ وہ مجھے آج تک جانتے ہیں اور ابھی چند سال پہلے ہی ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ کیا زمانہ تھا جب ابتداء ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے سے پورا پاکستان مدہوش ہوجاتا تھا۔ ہم اس پروگرام کے ختم ہونے پر واویلا مچاتے کہ اگلی قسط کب آئے گی۔ آپ کو پتا ہے پی ٹی وی کے ڈراموں کو دیکھنے کے لئے بازار سنسان ہوجایا کرتے تھے۔ ان کہی، دھوپ کنارے، عینک والا جن، اندھیرا جالا، گیسٹ ہاؤس، وارث، زنجیر اور ان جیسے اور بے شمار ڈراموں کو دیکھ کر ہمارے اندر ایک نئی توانائی آجاتی اور پی ٹی وی کی خبریں سن کر کبھی بھی ہم نا امید نہ ہوتے بلکہ خوش ہوجایا کرتے تھے۔

یہاں تک پہنچ کر تناؤ میں کافی حد تک کمی آچکی تھی اور کاکا شاید یاد ماضی میں کھوچکے تھے۔ میں نے چائے پینے پر اکتفاء کیا حلق کے اندر گھونٹ پر گھونٹ ڈال رہا تھا کہ ایسے میں کاکا نے مجھ ہی سے سوال کیا۔

آپ کی جوانی تو نہیں لیکن بچپن ضرور پی ٹی وی کے ساتھ گزرا ہوگا۔ میں نے ندیم اور محمد علی کی فلموں کا تذکرہ کیا کہ ہم پوری فیملی ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھنے میں قباحت محسوس نہیں کیا کرتے تھے۔ نستوراور زکوٹا جن کی پرفارمنس اور گیسٹ ہاؤس میں افضل خان کے کردار کو کوئی کیسے بھلا سکتا ہے۔ میں نے پی ٹی وی سے بہت کچھ سیکھا لیکن کبھی بھی پی ٹی وی کی وجہ سے مجھے ٹینشن نہیں ملی۔

پی ٹی وی کے کارٹوں اور پشتو ڈرامے بھی مجھے آج تک یاد ہیں بلکہ میں آج بھی اکثر فارغ اوقات میں یوٹیوب پراسمٰعیل شاہد کی کامیڈی اور سید سردار بادشاہ کی سنجیدہ اداکاری سے بے تحاشا لطف اٹھاتا ہوں۔

کاکا نے میری باتیں سنی تو اس کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ پھیل گئی اور اس بار ریموٹ کو خود سے کافی دور رکھ کر ماضی کی حسین یادوں میں کھو کر کہنے لگے۔ میں رفیع خاور اور وحید مراد کی یاد میں بہت رویا تھا لیکن بچھڑنے والے پھر واپس تو نہیں آتے۔ مجھے ذاتی طور پر پی ٹی وی نے بہت کچھ دیا ہے لیکن آج کے اس گلوبلائزڈ دور میں نجی چینلوں کی بھرمار نے اور ٹی آر پی کے دوڑ نے مجھ سے میرا بہت کچھ چھینا ہے۔

میں نے جب کاکا کے بدلتے تیور دیکھے تو پوچھا۔ آپ سے کیا چھینا گیا ہے۔

وہ بولے۔ مجھ سے میری خوشی اور میرا سکون۔ ہمارے مین سٹریم کے ہر چینل پر تناؤ کو بڑھاوا دینے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور بنیادی مسائل کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ آپ کو پتا ہے بھٹو نے جب پشاور اور کوئٹہ میں پی ٹی وی سنٹرز کھولنے کے لئے پی ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر سے وقت کا پوچھا تو بھٹو صاحب کو جواب ملا کہ آٹھ ماہ تو لگیں گے۔ بھٹو صاحب نے عوامی مسائل اور وقت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے تین ماہ میں دونوں جگہ سنٹرز کھونے کا حکم دیا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ تین ماہ کے قلیل مدت میں دونوں سنٹرز قائم ہوچکے تھے۔

کاکا نے طویل گفتگو کی لیکن ایک کالم میں اس کا ذکر ممکن نہیں۔ میں نے جانے کی اجازت مانگی تو کاکا دوبارہ ریموٹ کی طرف بڑھے۔ ریموٹ اٹھایا اور جیسے ہی بٹن دبائے ایک چینل پر اپوزیشن اور حکومت کے نمائندوں کی زبردست لڑائی جاری تھی اور اینکرز بھرپور مزہ لے رہے تھے۔

میں نے کاکا کو روکنے کی کوشش کی تو کاکا نے شرط رکھی کہ آج آپ یہاں ہی ٹھہر جائیں۔ میں نے حامی بھری اور پھر وہ کمرہ جہاں ہم دونوں تھے زیبی ناٹ اور مائی نیم از ریمبو ریمبو جان ریمبو کی صداؤں سے معطر ہوا اور کاکا کی ساری پریشانی رفوچکر ہوگئی۔

آج علم ہوا تفریح قوموں کے لئے کتنا ضروری ہے۔ مہنگائی تو اس وقت بھی تھی اور شاید امن و امان کا مسئلہ بھی بہت تھا لیکن کاکا جیسے لوگ خوش اور پر امید تھے کیوں نہ ایک بار پھر پی ٹی وی ہی کا تجربہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).