ادبی مجلّہ ’لوح‘ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ’راوی‘ کا ہی دوسرا روپ ہے


ممتاز شیخ ادبی دنیا میں منفرد صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ انہیں نہ ستائش کی تمنا ہے اور نہ صلے کی پروا۔ گورنمنٹ کالج سے عشق اس پہ مستزاد ہے۔ وہ اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے روحِ رواں ہیں۔ اسی تنظیم کے زیرِ انتظام فقیدالمثال سالانہ مشاعرے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کالج اور اب یونیورسٹی میں جو گیا اسی کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ اور ہو بھی کیوں نہ کہ سونا کندن جو ہو جاتا ہے۔ مادرِ علمی کا ذائقہ شیرِ مادر سا ہی ہوتا ہے جس کی تاثیر آخری سانس تک ہڈیوں میں رچی رہتی ہے۔ راوینز کو ایک دوسرے سے کم بخت محبت بھی بہت ہوتی ہے۔ پھر پوری دنیا میں میں راوینز کا ایک مقام اور نام ہے۔ مجھے لوح سے اس لیے بھی عشق ہے کہ اس میں ایک باب یا سیکشن اس کالج سے محبت پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔

ادبی پرچے لوح کو جاری ہوئے تقریباً ایک عشرہ ہو چلا ہے اس کے اجرا سے لے کر اب تک ہمارا قلمی تعاون ان سے جاری ہے اور ان کا قلبی تعاون۔ یہ دو طرفہ محبت صرف اور صرف لکھت کی بنیادوں پر ہے کہ لوح کے مدیر ادبی گروہ بندیوں سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کے عادی ہے۔ کسی دھڑے بندی یا ادبی سیاست میں وہ ملوث ہوئے ہیں اور نہ انہوں نے لوح کو اپنی شہرت کی بیساکھی بنایا ہے۔ اس دور میں اگر کسی مدیر کی ادبی دیانت کی قسم اٹھائی جا سکتی ہے تو ممتاز شیخ کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں۔ آغاز میں سبھوں نے یہی جانا تھا کہ یہ دو دن کی محبت ہے اور جلد مدیر اس بھاری پتھر کو چوم کر پیچھے ہٹ جائیں گے مگر لوگ تو زنانِ مصر کے مصداق انگشت بدندان ہیں کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔

لوح اپنے معنوی اور صوری ہر دو اعتبار سے راوی کا ہی دوسرا مستند ورژن ہے وہ یوں کہ وہاں نو عمر اور یہاں لوح میں جیّد اور مانے ہوئے مسلّمہ ادیب شائع ہوتے ہیں۔ جیسے صادقین نے کہا تھا کہ وہ ڈرائنگ روم کا نہیں ڈسٹ بن کا فنکار ہے بعینیہ لوح بھی ان تحریروں کو اپنے ہاں جگہ دیتا ہے جن کا تعلق بالواسطہ اور بلا واسطہ تعلق عوام سے ہوتا ہے مگر اس پرچے پر کسی قسم کی نظریاتی چھاپ نہیں کہ اس کا تعلق ادب اور ادیب سے ہے۔

زیرِ نظر شمارے کے اداریے جسے مدیر حرفِ لوح کے عنوان سے لکھتے ہیں میں اس پرچے کے اجرا کی غایت بھی بیان کی ہے۔ مدیر کا کہنا ہے ”غالباً سن دو ہزار کی بات ہے کہ انقلاب بذریعہ شعر و سخن کی سوچ میرے اندر در آئی اور میں نے اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے ادب میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے مشاعروں کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے سالوں میں اس کی اہمیت دو چند ہو جائے گی مگر یہ بھی جہدِ مسلسل کا تقاضا کرتی ہے۔

کم و بیش دو دہائیوں کے پس منظر اور حال پر اگر غور کیا جائے تو سوائے خاک اڑنے کے کچھ اور نظر نہیں آتا اور آج تو عالم یہ ہے کہ پوری قوم کے چہرے گویا خاک میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ اتنی خاک اڑائی جا چکی ہے کہ چہرے پہچاننا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ملک میں پھیلی انارکی، دُھول دھپّہ، سر پھٹول، الزام تراشی، خلفشار، انتشار اور باہمی چپقلش اتنی تکلیف دہ ہو چکی ہے کہ مستقبل کے بارے میں کوئی مثبت نقشہ کھینچنا محال ہوتا جا رہا ہے۔

آج قومی تشخص پارہ پارہ ہو چکا ہے تو مجھے پھر یہی خیال آتا ہے کہ میری بیس برس پہلے کی سوچ درست تھی کہ ادب برائے انقلاب کا نعرہِ مستانہ ایک بار پھر بلند کیا جائے اور میری سوچ کو تقویت ملی کہ ادب ہی تشدد کی جبلت پر قابو پا سکتا ہے اور ایک تہذیب یافتہ سماج وجود میں آ سکتا ہے تو میں نے لوح کا اجرا کیا ”۔

مندرجہ بالا سطور مدیر کے ادبی موقف اور ان کے نظریات کا جامع خلاصہ ہیں کہ معاشرے میں پھیلی بے چینی اور نظریاتی عدم وابستگی تخلیقی سرگرمیوں سے ختم ہو سکتی ہے۔ ادب سے بڑا کوئی نعرہ بھی نہیں ہوتا اور ادب سے بڑی کسی تحریک نے جنم بھی نہیں لیا۔ انسانی نفسیات کی پیچیدگی کی تطہیر ادب سے وابستگی ہی سے ممکن ہے۔ ماضی میں انہی جرائد میں کئی مباحث کو چھیڑا گیا جس میں مدیر مختلف الخیال ادبا کی آراء سے بحث کو کسی منطقی انجام تک پہنچائے جانے کی کوشش کرتا تھا۔

اوراق میں ڈاکٹر انور سدید بطور محرکِ بحث ”سوال یہ ہے“ کے عنوان کے تحت بحث کا آغاز کرتے تھے اور یہ بحث دو دو سال پر بھی محیط ہوتی تھی یوں ادیبوں اور نوجوان لکھنے والوں کی تربیت ہوتی تھی اور آج کل وہی ادیب ہندو و پاک میں اردو زبان کی پہچان ہیں۔ معاشرے میں تشدد کی لہر کے آگے ادب ہی سّدِ روئیں باندھ سکتا ہے۔ یہ تحریک کسی سیاسی جماعت سے نہیں کسی ادب پرور رجحان سے ہی جنم لینی ہے۔ جن سیاسی جماعتوں نے ہمارے ملک میں تحرک پیدا کیا ان میں بیشتر لوگ براہِ راست ادب سے متعلق تھے اور تفنن بر طرف سب سے پہلے ایشیا سرخ ہے کا نعرہ بھی ایک ادیب کی زبان سے ہی ایک اسمبلی میں لگایا گیا تھا۔ وہ بھی راوی کے ایڈیٹر رہے اور ادبی پرچے سویرا کی ادارت کے بعد اپنا شہرہ آفاق پرچہ نصرت جاری کیا۔ وہ خطاط بھی تھے اور مصور بھی۔ وہ ادب کے راستے سے سیاست میں آئے۔

زیرِ مطالعہ اور زیرِ بحث نمبر پندرہ حصوں پر مشتمل ہے جو حرفِ لوح یعنی اداریے، حمد، کرم اے شہہِ عرب و عجم، محبت جو امر ہو گئی (مادرِ علمی کے لیے ) ، تکریمِ رفتگاں اجالتی ہے کوچہ و قریہ، افسانہ، سفر نامہ، نظم، تنقید بعنوان لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے انبار، غزل، خود نوشت، تراجم، فلم و موسیقی، طنز و مزاح، خاکے اور غیبی منظر پار کا، رستہ سخن سوار کا پر مشتمل ہے۔ یہ مندرجات ہی ظاہر کر رہے ہیں کہ اس پرچے میں کیسے کیسے خزانے ہوں گے۔

قلمی معاونین کی فہرست میں افتخار عارف، محمد اظہار الحق، سلیم کوثر، احسان اکبر، ڈاکٹر محمد اجمل مرحوم، ڈاکٹر معین الدین عقیل، رشید امجد، خالد فتح محمد، مشرف عالم ذوقی، کشور ناہید، سعادت سعید، شمیم حنفی، غلام حسین ساجد، کوثر محمود، اجمل سراج، نصیر احمد ناصر، افتخار بخاری، فہیم شناس کاظمی، ابوالکلام قاسمی، قاضی افضال حسین، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، محمد حمید شاہد، سحر انصاری، انور شعور، ڈاکٹر امجد پرویز اور سرمد صہبائی جیسے لوگ اور نئی نسل کے نمائندہ تخلیق کار شامل ہیں۔ افسانوں، غزلوں، نظموں کے علاوہ اس میں رشید امجد کی خود نوشت عاشقی صبر طلب کا بھی ایک حصہ شامل ہے۔ بڑے آدمی کی کہانی بھی بڑی ہوتی ہے اور پھر اس پر رشید امجد کے قلم سے ٹپکے ہوئے جملے۔ وہ اپنے بچپن کی کئی چیزوں اور اپنی پسند کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

” اپنی استانیوں سے مجھے ایک اور ہی طرح کا لگاٶ تھا۔ معلوم نہیں کیوں زندگی بھر مجھے زیادہ عمر کی عورتوں سے عشق رہا ہے۔ عام طور پر جو لوگ ماں کی محبت سے محروم ہوتے ہیں وہ Mother Fixation کا شکار ہوتے ہیں لیکن میرا معاملہ مختلف ہے۔ میری ماں مجھے ٹوٹ کر پیار کرتی تھی، اتنا زیادہ کہ اس میں اسے کسی دوسرے کی شرکت گوارا نہ تھی اس Possessive Love کی وجہ سے میرا ان کا رشتہ Love Hate کا ہو گیا تھا۔ ماں ہمیشہ میرے ساتھ رہی پھر بھی مجھے مامتا کی کی کمی محسوس ہوتی رہی۔

شاید ان بڑی عمر کی استانیوں میں مَیں اسی کو تلاش کرتا تھا۔ ”اس طرح کی اور بہت سی کہانیاں اس خود نوشت میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہیں۔ سفر نامے میں سلمیٰ اعوان نے گارشیا لورکا کے سپین کو موضوع بنایا ہے۔ ابوالکلام قاسمی نے راشد کی فکری اور فنی جہات اور نوآبادیاتی مضمرات پر قلم اٹھایا ہے۔ ظفر سپل نے فلسفی ڈکارٹ کے بارے میں جانکاری دی ہے۔

غزل کا حصہ جاندار ہے اس سے چیدہ چیدہ اشعار پیش ہیں۔

جو ہو گیا ہے خرابہ تو اب شکایت کیا

یہ شہر تھا تو مرے غم گسار تھے کہ نہیں

سحر انصاری

صبح ہی شام ہو گئی، دن کو کہاں رکھوں گی میں

رات کو گود میں لیے صبح تلک جیوں گی میں

کشور ناہید

داس کبیر کہا کرتے تھے جگ درشن کا میلا ہے

کتنی بھیڑ ہے بازاروں میں لیکن ہنس اکیلا ہے

گھرے بادل ہوا میدان سے گھر میں چلی آئی

گھمرتی گھومتی شب میرے بستر میں چلی آئی

شمیم حنفی

رکھی سکوتِ صنم پر سدا بنائے سخن

یونہی تو میر نہیں بن گئے خدائے سخن

کسی کے حسن کی تعریف کی تھی برجستہ

کہیں اسی نے نہ دی ہو مجھے دعائے سخن

لیاقت علی عاصم

افتخار عارف نے تراجم کے سیکشن میں جاپان کے نگاسی کیوکو، آسٹریلیا کی کیتھرین گیلاگر اور سربیا کی ڈیسنکاما کسمووچ کی نظموں کو جس خوبصورتی سے اردو میں ڈھالا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ سرمد صہبائی کی کافیاں بعنوان غیبی منظر پار کا، رستہ سخن سوار کا نثری آہنگ میں شامل ہیں۔ کافی کی ایک اپنی ہئیت ہے مگر سرمد نے فارمیٹ نیا تجربہ کیا ہے۔

یہ انٹر نیٹ، گوگل، سوشل میڈیا میں بلاگ اور فیس بک، ای رسالہ جات اور کتب کا دور ہے۔ ادیب اور شعرا اب ان پرچوں کے بجائے وہاں کا رخ کرتے ہیں اور اپنی تخلیق آسانی سے اور جلد اپنے قارئین تک پہنچا سکتے ہیں۔ اب نہ وہ کتابت رہی اور نہ وہ کاتب کہ جو خود اعلیٰ ادبی ذوق کے مالک ہوتے تھے اور تحریر کی نوک پلک درست کرنے میں بھی انہیں ملکہ حاصل تھا۔ اب لکھاری نے خود ہی تخلیق کمپوز کرنا ہوتا ہے اور خود ہی اس کے سقم دور کرنے ہوتے ہیں۔ پہلے مدیران اغلاط لگاتے تھے اور اس کی فنی درستگی پر بھی زور دیتے تھے اب یہ کام لوح کا مدیر ہی کرتا ہے۔ وزیر آغا کہا کرتے تھے کہ تحریر کا اصل حسن کاغذ پر اترنے کے بعد ظاہر بھی ہوتا ہے اور نکھرتا بھی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ ادیب اوراق فنون اور شب خون جیسے پرچوں میں شائع ہونا چاہتے تھے فی زمانہ جو جرائد و رسائل ہمارے ہاں دستیاب ہیں ادیب ان میں شائع نہ ہو کر زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔

آج کل کے مدیران اپنے پرچوں کو پبلک ریشیلننگ کا آلہ سمجھتے ہیں، گروپ بندی کرتے ہیں اور تعصب کے اسیر ہیں۔ انہی پرچوں کی بدولت وہ کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں اور نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں کا استحصال کرتے ہیں اور ان کی وساطت سے اپنی ذاتی پروجیکشن کے فن میں یکتا ہو چکے ہیں۔ ادبی منڈیاں قائم ہیں اور وہاں انہی کا پراڈکٹ بکتا ہے۔ مگر جیسے پہلے ذکر ہوا یہ مدیر کچھ اور طرح کے سنجیدہ ادب کی ترویج میں ہمہ تن مشغول ہے اور ضخیم ترین نمبر نکالنے میں مگن ہے۔ ادارت اور مجلہ ترتیب دینے اور شائع کرنے کے بعد اس کی ترسیل تک وہ سب ایک اکیلے کرتے ہیں اور کسی سے نہ اشتہار کی درخواست کرتے ہیں اور ادب کو ایک مشن سمجھ کر قارئین تک پہنچا رہے ہیں۔ لوح بلاشبہ اس عہد کی ادبی دستاویز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).