مغرب میں روشنی اور مشرق کی نارسائی کے اسباب


معاشرت جب تک روایت کے نرغے میں رہتی ہے، تب تک ناآسودگی، محرومی اور گھٹن کا دور دورہ ہوتا ہے، اور لوگ ہر اس قدر کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں، جس سے ان کی زندگی مشکل، روکھی پھیکی اور ایک عذاب بنی رہے۔

مغرب نے روایت کا طوق اتار پھینک کر، زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں اور مسرت، انبساط اور آسودگی کے ہفت خواں سر کر لیے ہیں، جب کہ مشرق نے روایت کو حرزِ جاں بناکر حسرتوں اور محرومیوں کو گلے لگایا ہے اور دنیا کو اپنے لیے اک گوشہ غم خانہ بنا رکھا ہے۔ مغرب کے باسیوں نے اپنی مختصر سی زندگی کو ممکن حد تک نشاط انگیز اور پرکیف بنانے کی کامیاب سعی کی ہے اور ان کی زندگی پر غالب کا یہ مصرع صادق آتا ہے کہ ”کثرتِ بوسہ سے اب ہونٹ پھٹے جاتے ہیں“

جب کہ مشرقی لوگ متحرک عریاں تصاویر دیکھ دیکھ کر محرومی کے احساس کو قوی تر کرتے، اعصابی تناؤ کے شکار ہوتے اور غالب کے مصرعے ”کہ شب خیال میں بوسوں کا اژدہام رہا“ کے مصداق تخیل و تصور میں اضطرابی ہیجان سے گزرتے ہیں اور نارسا ہاتھ کی نمناکی کا سبب بنتے ہیں :

ہاتھ آلودھ ہے، نمدار ہے، دھندلی ہے نظر

ہاتھ سے آنکھ کے آنسو تو نہیں پونچھے تھے

احساس گناہ کو اس پر مستزاد سمجھ لیجیے۔

غالب کے درج ذیل اشعار سے اگر یہ مطلب فرض کرلیا جائے کہ ان میں یہاں اور وہاں ( مشرق اور مغرب ) کے درمیان فرق کی بات کی گئی ہے تو بے جا نہ ہوگا :

جلوہ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو

یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا

یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

واں ہجومِ نغمہ ہاے سازِ عشرت تھا اسدؔ

ناخنِ غم یاں سر تارِ نفس مضراب تھا

پھر بھی مشرق مدعی ہے کہ یہاں ہر سو روحانیت کا نور پھیلا ہوا ہے اور وہاں بے راہروی کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ یہاں کے مدعیانِ روحانیت جو آستینوں میں ماہ وآفتاب لیے پھرتے ہیں بھی چپ کا روزہ نہیں توڑتے۔ کوئی لاکھ دہائی دے کہ :

چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ وہ پہلے تو خاموشی نہیں توڑتے اور اگر خموشی توڑے بھی تو جلال میں آجاتے ہیں، اور جلال بھی ایسا جو محض مریدوں پر حال کی مستی طاری کرے اور بس۔ اہلِ رمز کو خموشی بہت بھاتی ہے۔ ظہوری کا کہنا ہے :

تو سخن سنج نہ ای ورنہ خموشی سخن است

اور عرفی شیرازی تو حد کرکے کہتے ہیں :

یک سخن نیست کہ خاموشی ازاں بہتر نیست

کہتے ہیں کہ خیال کو جب زبان کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے تو ایک تو زبان اسے آلودہ کرتی ہے اور دوسرے ابلاغ بھی ناقص رہتا ہے، جب کہ خاموشی کی زبان اس قسم کی کثافتوں سے پاک ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ خموشی پردہ ڈالتی ہے، عیب چھپاتی ہے اور اگر کسی پر اس کی کم مائگی، تہی دامنی اور بے بسی کے باعث چپ طاری ہو تو ممکن ہے دوسرے اسے کسی رمز سے تعبیر کرے یا کسی طوفان کا پیش خیمہ قرار دے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ :

خموشی پاسبانِ اہلِ راز است

ہمارے شاعرِ مشرق مصِر ہیں کہ ”فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن“ اور کہتے ہیں کہ :

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

جب کہ ایک مغربی سائنسدان رچرڈ ڈاکنز لکھتے ہیں : ” مغربی سائنس نے اچھے شواہد پر عمل کرکے یہ معلوم کیا ہے کہ چاند ایک چوتھائی ملین میل کی دوری سے زمین کے گرد گردش کر رہا ہے، نیز مغرب کے بنائے ہوئے کمپیوٹروں اور راکٹوں کا استعمال کرکے لوگوں کو چاند کی سطح پر لے جانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جب کہ قبائلی سائنس اس عقیدے کی بنیاد پر کہ چاند محض درختوں سے ذرا اوپر ہے اپنے خوابوں کی دنیا سے باہر کبھی اسے چھو نہیں سکے گی“

اور اس کا ایک سبب گللیلیو کے اس قول سے بھی اخذ کیا جاسکتا ہے :

” I do not feel obliged to believe that the same God who endowed us with senses and intellect has intended us to forgo their use“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).