منصورہ ”سانوں نہر والے پل تے بلاکے“


لاہور کی انارکلی کی تنگ گلیوں میں دم گھٹنے لگا تو دوستوں نے منصورہ جانے کا مشورہ دیا۔ جب ہم جماعت اسلامی مرکز کے داخلی گیٹ پر پہنچے تو پولیس اہلکار نے مصافحہ کے بعد دریافت کیا کہ کس سے ملنا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ جناب خالی دورے پر آئے ہیں باقی جس شخصیت سے ملنے کا شرف حاصل ہو وہ ہمارے لئے سونے پہ سہاگہ ہوگا۔ پولیس نے بلا اندیشہ ہر عمارت میں گھسنے کی کھلی اجازت دے دی اور آگاہ کیا کہ عقبی دروازے کے آگے سوسائٹی ہے وہاں پر تھوڑا محتتاط رہے۔

ہم استقبالیہ کی طرف پیش قدمی کررہے تھے کہ جناب عنایت الرحمن اعتزاز صاحب آ پہنچے۔ عنایت الرحمن صاحب کا تعلق مٹلتان کالام سے ہیں انہوں نے اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہے اور اب منصورہ مرکز میں ایک اہم ذمہ دار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ کچھ دیر مہمان خانے میں سستانے کے بعد عنایت صاحب نے مرکز اسلامی کے باقی حصوں کا بھی تفصیلی دورہ کروایا۔ ہم نے اس نشست پر بھی بیٹھ کر تصویر کشی کی جس پر شوری کا اہم اجلاس ہوتا ہے (مجھے امید ہے کہ جماعت اسلامی کے بھائی اسے حریم شاہ والی گستاخی نہیں سمجھیں گے، ہم نے کوئی ٹک ٹاک نہیں کیا صرف عکس بندی کی ہے ) آجائیں آپ کو ایک انتہائی اہم پل بھی دکھاتا ہوں، عنات صاحب ہمیں بازوؤں سے پکڑ کر سابق امیر جے آئی قاضی حسین احمد کے گھر سے چند قدم آگے بیت الخلا کے پاس لے گئے۔

ہمارا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کہ بھئی پل کہاں ہے یہ تو بیت الخلا ہے؟ اس نے جواب دیا تم نے میڈم نور جہاں کا وہ مشہور گانا ”سانوں نہر والے پل تے بلا کے سانوں ماہی کتھے رہ گیا“ جماعت اسلامی کے ایک انتہائی اہم ذمہ کے منہ سے یہ سوال میرے لیے بہت ہی حیران کن تھا۔ میں نے اقرار میں سر کو جنبش دی۔ کہنے لگے، یہ وہ جگہ ہے جہاں ”نہر والی پل“ تھی اور یہ گانا اسی پل پر ریکارڈ ہوا تھا جس کو نہر سمیت ختم کرکے یہ بہت سارے بیت الخلا تعمیر کیے ہیں۔

اب میں تمہیں وہ سینما بھی دکھاوں گا جہاں یہ گانا چلایا گیا تھا۔ چند قدم آگے بڑھے تو ایک سینما ہال میں داخل ہوگئے۔ تقسیم ہند سے پہلے منصورہ کے بالکل ساتھ ایک نہایت معروف فلم سٹوڈیو تھا، ثنائی سٹوڈیو۔ ثنائی سٹوڈیو سے منسلک ایک سینما ہال بھی تھا، اس سینما میں ثنائی سٹوڈیو میں تیار ہونے والی فلموں کو نمائش کے لیے پیش کرنے سے پہلے دیکھا جاتا تھا۔ ثنائی سٹوڈیو کے مالک نے سارے کا سارا سٹوڈیو منصورہ کو بیچ دیا۔

آج اس سٹوڈیو کو مختلف تقاریب کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ سینما اسی طرح موجود ہے جہاں اسلامک لٹریچرز اور ڈاکومنٹریز کو بڑی سکرین پر دکھایا جاتا ہے۔ منصورہ میں اعلی درجے کے سکولز اور کالجز کے ساتھ مدرسے بھی ہیں۔ مشرف دور سے قبل ملائیشیا، انڈونیشیا اور چائنہ سے طلبہ پڑھنے کے لئے اس مدرسے میں آتے تھے، بعد میں جماعت اسلامی اور مشرف کے مابین ایک معاہدے کے تحت غیرملکی طلبہ پر پابندی لگادی گئی۔ منصورہ کے چاروں اطراف میں ستر سے ذائید سیکیورٹی کیمرے لگے ہوئے ہیں، انتہائی محفوظ اور پرسکون سوسائٹی ہے۔

دن رات گھر کا دروازہ کھلا چھوڑئیے کوئی آپ کے گھر سے بغیر اجازت ماچس کی ڈبیا بھی نہیں اٹھاتا۔ عنایت الرحمٰن اعتزاز کے بقول بہت سے لوگ اپنے آپ کو آزاد اور محفوظ رکھنے کی خاطر یہاں پر مکان کرایہ پر لے کر بیٹھے ہیں جو اپنے بچوں کو چاردیواری کے اندر سیکیورٹی کیمروں اور پولیس کی حفاظت میں قریبی سکول اور مدرسوں میں چھوڑ کر ارام سے لاہور شہر میں روزگار میں مصروف ہوتے ہیں۔ منصورہ کی ہر عمارت دل کو لگی، امید ہے کہ جماعت اسلامی اس روایت کو نہیں توڑے گی اور علم کے اس سمندر سے ہر شہری کو پیاس بجھانے کا موقع دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).