کیا انسانیت دم توڑ رہی ہے؟


کسی کو کہتے سنا کہ اِنسانیت دم توڑ رہی ہے۔ پھر جب اِس بات پر غور کیا تو لگا کِس قدر سچی بات کہہ گیا کوئی۔ اپنے اِرد گِرد کے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے اِنسانی شکل میں کیسی کیسی عجیب مخلوق سانس لے رہی ہے۔ مخلوق اِس لئے کہنا پڑا کہ اللہ نے اِنسان کو اَشرف المخلوقات کہا ہے۔ سوال یہ ہے کیا واقعی آج کا اِنسان اِس پیمانے پر پورا اُترتا ہے؟ کہتے ہے جب ضمیر ملامت کرنا چھوڑ دے تو سمجھ جاؤ اِنسانیت ختم ہو گئی۔

کیا ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کر تا ہے؟ کبھی سوچیئے کیا کبھی آپ کے ضمیر نے آپ کو ملامت کیا، کبھی روکا جب آپ اور میں یہ جانتے ہے کہ صفائی مسلمان کا نصف ایمان ہے اور ہم اپنے گلی محلے میں کچرے کے انبار لگا دیتے ہیں؟ ہمیں اپنے نصف ایمان کے کھو جانے کا کبھی دکھ ہوا؟ شاید نہیں۔ لیکن اِس بات پر کئی لوگ اعتراض اُٹھا دیتے ہے کہ پھر کچرا کہاں پھینکیں یہ تو گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی بہتر اِنتظام کرے۔ اچھا تو پھر ہم اِس مسئلے کو وقتی طور پر لوگوں کی مجبوری سمجھ کر یہی چھوڑ دیتے ہے کہ چلو فی الحال اِتنا ہی کافی ہے کہ آپ کو یاد کرا دیا جائے کہ صفائی نصف ایمان ہے کوشش کیجیئے کہ خود کوئی بہتر حل تلاش کر لیں جب تک حکمران اِس مسئلے کا کوئی سنجیدہ حل تلاش نہیں کر لیتے۔

کچھ دن پہلے ایک این جی او کے پروگرام میں جانے کا اِتفاق ہوا، وہاں پر مہنگائی کے مارے غرباء میں راشن اور کپڑے تقسیم کیے جانے تھے۔ ہمارا دین یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب کسی کو اپنے ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ اِ س بات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی اِنسان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور اپنے اِس عمل کو اپنے اور اپنے رَب کا معاملہ بنا دو، مگر جناب وہاں تو ایک الگ ہی ماحول دیکھنے کو ملا، جس طرح غریبوں کی عزت کو تار تار کر کے اُن کو چند پرانے کپڑوں اور تھوڑے سے راشن سے نوازا گیا، میرا نہیں خیال کہ اللہ تعالیٰ کو یہ عمل پسند آیا ہوگا باقی اللہ پاک بے نیاز ہے وہ نیتوں کا حال بہتر جانتا ہے۔

ایک دس کلو آٹے کی بوری پر پہلے تو سات آٹھ لوگوں نے ہاتھ رکھ کر اپنا فوٹو سیشن کروایا، پھر اُنہی سات آٹھ لوگوں نے مل کر وہ آٹے کی بوری ایک غریب عورت کو سونپی، جو سر جھکائے اپنے آنسوؤں کو چھپائے آٹا لے رہی تھی، مگر مجال ہے کسی کو اُس عورت کی بے بسی اور عزتِ نفس کا ذرا سا بھی احساس ہوا ہو، دینے والے ہاتھوں کی نگاہیں تو کیمرے کی طرف تھی اور چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ۔ انہوں نے تو اِن تصاویر کو اپنی شہرت اور جھوٹی عزت کے لئے اِستعمال کر نا ہے، مختلف میگزینز میں چھپوا کر اِس کو کیش کرنا ہے۔

مگر کوئی نہیں سوچتا کہ یہ عورت پتہ نہیں بھیک لینے اپنے گھر بتا کر بھی آئی ہے، اَگر نہیں تو کیا ہوگا جب اُس کے محلے والے یا رشتے دار یہ تصاویر دیکھینگے، کیا وہ اور اُس کے بچے معاشرے میں سر اُٹھا کر جی سکیں گے؟ جی نہیں ایسا نہیں سوچا جاتا۔ آج اِنسانیت بھی صرف ایڈورٹائزمنٹ کا نام ہے۔ میرے دِل میں راشن بانٹنے والوں کے لئے کوئی عزت نہیں جاگی بلکہ مجھے وہ خون آشام چمگادڑیں لگ رہی تھی جو اِن غریبوں کو خون کے آنسو رُلا کر اُن کی بے بسی کی نمائش کر کے اپنے لئے معاشرے میں عزت کا مقام بنائے پھرتے ہیں۔

یہ اِنسانیت ہے یا اِنسانیت کی تذلیل فیصلہ آپ خود کیجئیے۔ یہ تو ایک مثال ہوئی، میں یہ نہیں کہتا کہ سب اِدارے ہی ایسے ہے، اچھے لوگ اور اچھے اِدارے بھی اِس ملک میں کام کر رہے ہے، مگر قسمت خراب کہ کاروباری ذہنوں کا راج ہے۔ آپ کہیں بھی چلے جائے، ہسپتال میں، تھانے میں، کسی بھی سرکاری دفتر میں یہاں تک کہ اپنے عزیز رشتے داروں میں اگر آپ غریب ہے تو پھر آپ اِنسان کہلانے کے حقدار نہیں ہے، اور آپ اَشرف المخلوقات بھی نہیں ہے۔

اِبن بطوطا کا قول ہے کہ اِنسان ایک ایسا غافل منصوبہ ساز ہے کہ وہ اپنی ساری پلاننگ میں کبھی اپنی موت کو شامل ہی نہیں کرتا۔ اکثریت یہ سوچ کر جی رہی ہے کہ ہم نے کبھی بھی اِس دُنیا سے نہیں جانا۔ اور نہ ہم نے اپنے کرموں کا کوئی حساب دینا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے تعلیمی نظام میں کچھ ایسی اِصلاحات کر دیں جہاں بچوں کو نمبروں کے پیچھے بھاگنے کے علاوہ تھوڑی سی اِخلاقی قدریں بھی سکھائی جائیں، اُن کو بتایا جائے کہ ہمیں جو اللہ پاک نے اِنسان بنایا ہے تو آخر اِنسانیت ہوتی کیا ہے؟

کیا اللہ پاک اِ س بات پر قدرت نہیں رکھتا تھا کہ ہمیں کوئی جانور بنا دیتا بالکل قدرت رکھتا ہے، لیکن اُس پاک ذات نے ہمیں اِنسان بنایا اور اُس پر یہ احسانِ عظیم کیا کہ ہمیں آپ ﷺ کا اُمتی بنا کر اِس دنیا میں بھیجا۔ اِس اِتنے بڑے احسان کے بدلے ہم کیا کررہے ہیں؟ یہ شاید ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ آج ہم جو کریں گے اور جس طریقے سے کریں گے کل ہماری آنے والی نسلیں ہمارے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بالکل ویسا ہی کرینگی، جو شاید مزید نقصان اور دکھ کا باعث ہو۔

کیونکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم کررہے ہے اور جس طرح سے کر رہے ہے وہ سب ٹھیک نہیں ہے بلکہ زیادہ تر دوسروں پر سبقت لے جانے کی دوڑ اور دکھاوا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جس معاشرے میں سب چلتا ہے پھر وہ معاشرہ مشکل سے ہی چلتا ہے۔ ہمیں اِس دوڑ سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنے آپ کو پہچاننا ہوگا کہ ہم کون ہیں اور ہمیں پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے، جس دن ہم نے اِس مقصد کو سمجھ لیا ہمیں اپنا آپ خود بخود باعزت محسوس ہونا شروع ہو جائگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).