بلوچستان میں علم بانٹنے کی پاداش میں پروفیسر کے خلاف انتقامی کارروائی


اسوقت بلوچستان کئ حوالوں سے سب سے آگے ہوتا جارہا ہے۔ پسماندگی، غربت اور بے روزگاری کی اعلی مثالیں ملتی ہیں۔ بلوچستان میں شعوری علم پھیلانے اور آزادی اظہار پہ تو مدتوں سے قدغن لگی ہوئی ہے۔ نہ تو ادیب اور  شاعر کھل کے معاشرے کے اصل چہرے کو بیاں کرسکتا ہے اور نہ ہی روشن خیال ترقی پسند ادب یا ادیب کے لیے کوئی گراونڈ موجود ہے۔ سیاست اور صحافت میں تو اظہار رائے پہ روز اول سے کوئی گنجائش نہیں تھی۔

مگر دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک انوکھی خبر وائرل ہوئی ہے کہ ( لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز اوتھل ( لوامز) اوتھل میں شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ایک استاد کو علم بانٹنے کی پاداش میں کیمپس منتظمین نے شوکاز کیا ہے۔ اگر کسی جامعہ کا یہ المیہ ہو کہ ایک پروفیسر کو تنخواہ حلال کرنے اور صوبے کا قرض اُتارنے کے لیے روکا جائے تو ہم کس سے اپنی تعلیمی پسماندگی کا گلہ کریں، وہ کون سی وجوہات تھیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنے ماتحت استاد کی سوچ یا لیکچر سے خوف و خطرہ لاحق ہوا ہے۔

اگر استاد کو علم بانٹنے سے سزا دی جاتی ہے تو ان کو کس مد میں یونیورسٹی کے کمزور بجٹ سے تنخواہ دیا جا رہا ہے؟ ڈاکٹر حسین مگسی صاحب ایک خوش قسمت استاد ہیں کہ اس دور میں ان کو شعور و آگہی اور علم باٹنے کی صرف وجہ بتانے کی ضرورت پیش آرہا ہے۔ اس سے قبل ہم نے ہمیشہ یہی سنتے آرہے ہیں کی ( لوامز) یونیورسٹی ایک اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور روشن خیال ترقی پسند استادوں کا درسگاہ ہے مگر اس طرح کے چونکا دینے والے واقعے نے ہم سب نوجونوں کو حیران و پریشاں کردیا۔

معاشرے کو ایک مہذب سماج بنانے میں تمام مکاتب فکر کی برابر ذمہ داری ہوتی ہے اس میں اسٹوڈنٹس اور استاد کا کلیدی کردار ہوتا ہے اگر استا د کو اپنے ہی لوگوں کو علم دینے کی راہ میں اس طرح کی رکاوٹیں حائل ہوں تو سمجھ لیں کہ معاشرے اور درسگاہوں نے ایک اور رخ اخیتا ر کیا ہے جس کی منزل سے کوئی خیر کی امید نہیں کی جاسکتی۔

اس حوالے سے میں نے متاثرہ اسسٹنٹ پروفیسر سے ان کی موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو اس حوالے سے ان کا موقف تھا کہ بحیثیت ایک استاد کے اور (اکیڈمک اسٹاف ایسوسیایشن) ASA کے صدر کے ہمارری ہمیشہ کوشش رہی ہے طلبا کی مدد کریں اور جتنا مجھ سے ہوا میں نے پرامن تعلیم ماحول کی قیام کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور طلبا اور کیپمس انتظامیہ کے ساتھ ہر ایکڈیمک مسئلے پر شانہ بشانہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت یونیورسٹی شدید انتظامی بحران کا شکار ہے ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ کیمپس کو مالی و انتظامی بدعنوانی کی طرف لے جارہے ہیں ان کے خلاف آواز اُٹھانا ہماری فرض بنتا ہے کیونکہ اگر ملک میں ہماری یونیورسٹی کا نام بدنام ہوگیا تو ہم سمجھتے ہیں یہ ہماری ناکامی ہے ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اُس معاشرے کے اندر اتنی بڑا اکیڈمک ادارہ ان چیزوں کی متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے مجھے طلبا کی مدد کرنے اور بدعنوانیوں کے خلاف بات کرنے کی پاداش میں غلط موقع پر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے (لوامز ) یونیورسٹی ایکٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق تمام انتظامی پوزیشنوں پہ تعینانی و تقرری کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کے لوکل یا ڈومسائل رکھنے والے ہی اہل ہوتے ہیں مگر اسوقت دیدہ دلیری کے ساتھ یونیورسٹی ایکٹ کی پامالیاں ہورہی ہیں اگر کوئی اس طرح کے موضوعات پہ آواز اُٹھاتا ہے تو ان کا انجام میرا جیسا ہوگا۔ جب خود ( شیخ الجامعہ) وائس چانسلر شعبہ ایگریکلچر سے یونیورسٹی کے ہی بجٹ سے ( پی، ایچ ڈی) کے لیے بیرون ملک گیا تو کافی ٹائم واپس نہیں آیا۔

یونیورسٹی ملازمین کے GP fundکو یونیورسٹی کے مد میں خرچ کیا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب ملازمین کی تنخواہ نہیں ہے۔ اس مالی خسارے کے ذمہ دار مجھ سمیت تمام حقیقت پسند استاد کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں ہیں مگر ہم ہر طرح اس صوبے کے پبلک یونیورسٹی کو اپنی آنکھوں سے تباہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں مجھے ہراس کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی رائٹر طالبہ افسادایت زہری نے اس مسلے پہ اپنی رائے دیتے ہوئے کہی کہ جب ہمارے معاشرے میں استاد کے ساتھ اس طرح ہوتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہم تعلیمی اداروں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ ہم ایک مہذب اور لکھا پڑھا بلوچستان بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ کسی بھی معاشرے میں استاد عظیم ہوتے ہیں ان کی عزت و احترام کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ( لوامز ) یونیورسٹی شعبہ انگریزی لٹریچر کے طالبعلم اور متحرک طلبا رہنما ابرا برکت سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر حسین مگسی صاحب نے لسبیلہ یونیورسٹی میں ایڈمنسٹریشن کی ناقص پالسیوں کو دیکھ کر ضرورت محسوس کی کہ یونیورسٹی میں اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی انہوں نے فیکلٹی ممبرز کے حقوق کی خاطر جدوجہد شروع کیا یہ جدوجہد یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن کو ہضم نہیں ہوئی انہوں نے مختلف ہتکنڈے استعمال کرتے ہوئے اسٹاف کو ڈرانے کی کوششیں کی۔ جیسا کہ طلباء تنظیموں کے تاریخ میں کلچر رہا ہے۔ اپنے اداروں میں لیکچرز پروگرام اور اسٹڈی سرکلز کا اہتمام کرتے ہیں۔

ان سرکلز میں طلباء تنظیمیں لیکچر دینے کے لئے ٹیچرز کو اور دیگر انٹلیکچوئلز اور ریسورس پرسنس کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ لسبیلہ یونیورسٹی میں اسی طرح ڈ اکٹر حسین مگسی کو مدعو کیا گیا انہوں نے طلبا کو لیکچر دیا اس سے پہلے کئی ٹیچرز نے اسٹڈی سرکلز میں مدعو کیے ہیں اور ٹیچرز لیکچرز دیے ان کو کسی قسم کا شوکاز نہیں دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی اس بار اسی لیے اس انوکھا کام سر انجام دیا کہ ڈاکٹر حسین صاحب اپنے جدوجہد اور ٹیچرز کے حقوق کی بات کرنے باز آ جائیں۔ المیہ یہ ہے یونیورسٹی میں کرپشن عروج پر ہے اس لیے طلباء تنظیموں اور اکیڈمک اسٹاف اسوسیشن کے آواز دبانے کے لئے وائس چانسلر اور ایڈمنسٹریشن مختلف ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).