”اپنے شہر کو حرکت دیں“


بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے دن ایک بات سنی۔ لب لباب کچھ یوں تھا کہ ”کراچی آرٹ کونسل نے اس بار سارے صوبوں کی زبانوں کی مجالس اردو کانفرنس میں رکھیں کیونکہ کراچی ایک بڑا شہر ہے اسے اردو کے ساتھ دوسری زبانوں کو بھی اس کانفرس کا حصہ بنانا چاہیے“۔ وغیرہ وغیرہ

میں اسی بات کو بنیاد بنا کر چند باتیں لکھنا چاہتی ہوں۔ ممکن ہے تب شہر اور زبان کے فرق کو بہترین انداز سے سمجھا جا سکے۔

دوسرا آپ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ شہر کراچی میں شہری سرگرمیاں بہت ہوتی ہیں جن میں سے ایک اردو کانفرنس ہے جو آرٹ کونسل میں سالانہ ہونے والی بہت سے سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ شہر کراچی میں آئے دن ادبی و ثقافتی، دینی، تعلیمی یہاں تک کہ سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں۔ یہی تمام سرگرمیاں ماسوائے ادب و ثقافت، معیاری تھیٹر کے دوسرے صوبوں کے شہروں میں بھی حسب مزاج جاری رہتی ہیں لیکن کراچی میں روزمرہ کا حصہ ہیں۔

بڑھتے ہیں اس بات کی طرف جو اس بار بارہویں اردو کانفرنس کا خاصہ تھی۔

یعنی دوسری زبانوں کا اردو کانفرنس کا حصہ ہونا، وجہ یہ کہ کراچی بڑا شہر ہے کسمو پولیٹن ہے وغیرہ وغیرہ۔

کہی گئی بات درست ہے۔ پھر نمائندگی مل گئی۔ ذمہ داری اردو زبان کی تھی یا بڑے شہر کی۔ کراچی نے اور آرٹ کونسل نے نبھا دی۔

کیا صوبوں کی اپنی کوئی ذمہ داری نہیں؟ خاص کر آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے کی۔

فنون کے حوالے سے ہر صوبے میں کیا کام ہورہا ہے؟

وہاں ان کے شہروں کی آرٹ کونسل کہاں ہے؟

کیا کام کررہی ہے؟

کیا صوبائی سطح پر ادب و فنون کی ترویج کی ضرورت نہیں ہے؟

کیا ان صوبوں کی ذمہ داری نہیں کہ اپنے شہروں میں موجود آرٹ کونسل میں اردو کو فعال کرے۔ کیا وہ محض صوبائی زبان کو فروغ دیتے رہیں گے۔ قومی زبان جو رابطے کی زبان بھی ہے اس کی ترویج کے لئے کچھ نہیں کریں گے۔

چلیں زبان بھی بالائے طاق رکھ دیں۔

اب بحیثیت شہری کوئی ذمے داری نہیں بنتی کہ ادبی و علمی سرگرمیوں کو فروغ دیں یا ان سرگرمیوں کا حصہ بنیں ( ہر صوبے میں کئی شہر ہیں ) ۔ ادب و فنون چھوٹا بڑا شہر نہیں دیکھتا۔ ورنہ ریشماں، پٹھانے خان، سائیں ظہور، عابدہ پروین صاحبہ اور بہت سے فنکار کبھی نہیں سنے جاتے۔ یہ فن و جوہر کی بات ہے۔ ایسے فن و جوہر پیدا کرنے والے اداروں کی کمی اور ضرورت بھی دوسرے شہروں میں کبھی نہیں محسوس کی گئی

لاہور میں این۔سی۔ اے برسوں سے موجود ہے بغیر کسی رکاوٹ سے چل رہا ہے۔ کراچی میں ایسے ادارے کھلے اور کراچی سے سیاسی منافقت و حسد کے باعث بند ہوتے گئے۔ کراچی کے شہری آرٹ اسکول کی کمی کو محسوس بھی کرتے رہے لیکن چھوٹے پیمانے پر اپنے تئیں کوشاں رہے۔ جن میں آج کے بہت بڑے بڑے نام شامل ہیں جو آرٹ کی فروغ کے لئے سڑکوں کی خاک چھانتے تھے۔ ( اگر بڑا شہر کچھ معنی رکھتا تو یہاں کوئی خاک کیوں چھانتا۔ بڑا اور چھوٹا شہر کوئی معنی نہیں رکھتا اس میں ہونے والی سرگرمیاں اس شہر کی مثبت و منفی ساکھ بناتی ہیں۔ بیٹھے بٹھائے شہر فعال نہیں ہوتا۔ اب گزشتہ چودہ سال سے ناپا موجود ہے۔ آرٹ کونسل گرم و سرد دیکھنے کے بعد دس سالوں سے بہتری کی طرف گامزن ہے۔ پچیس سال پہلے وہ بھی اپنی اہمیت کھو چکا تھا۔

کاروباری مشاغل کے علاوہ ہر شہر میں ادبی و ثقافتی کام بہت ہوتا ہے، سنا تو اب تک یہی ہے پھر اردو کی ترویج کے لئے کوئی الگ ادارہ آئے گا شاید۔ صوبے بھی تو اردو ادبی سرگرمیاں منعقد کرسکتے ہیں جہاں ملک کے دیگر حصوں سے لوگ پہنچ سکیں اور اس طرح شہر میں فنون سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنے پسندیدہ ادیبوں اور فنکاروں کو اپنے شہروں میں سننے کا موقع مل سکے۔ دنیا بھر کا ادب پڑھ سکیں گے۔ صرف نمائندگی ملنے سے شہر کراچی و آرٹس کونسل کی ذمہ داری پوری ہوگی اور کیا۔ ہر صوبے کے شہر سماجی، ادبی، علمی و تعلیمی تنظیموں میں فعال رہ کر فنون، زبان و ادب کی ترویج پر کام کریں گے تب ہی صحیح معنوں میں آزاد شہر کی بنیاد ڈال سکیں گے۔ (آزاد تو آپ ستر سال پہلے ہوئے تھے فرق کیا آیا۔ ) ۔

شہری مثبت طرز زندگی اور زبان دو الگ پہلو ہیں۔ آپ زبان کو اپنانا نہیں چاہتے نہ اپنائیں اپنا شہر تو اپنائیں۔ خاص بات یہ ہے کہ زبان کا پھیلاؤ آپ روک نہیں سکتے اور شہر آپ کے طرز عمل کا محتاج ہے۔

میں کسی خام خیالی میں مبتلا نہیں ہوں ہر صوبے کے شہروں کو ثقافتی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے اور ایسا وہاں مقیم شہری ہی کرسکتے ہیں۔ کراچی ہر صوبے کے شہروں کی جگہ و خالی پن کو نہ دور کر سکتا ہے نہ صوبے میں ان کے غیر فعال شہر کی ساری سرگرمیاں نبھا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ادیب و فنکار آرٹ کونسل کے طرز کے ادارے اپنے صوبے کے مراکز سے اپنی زبانوں کے ساتھ اردو کے لئے کام کریں۔ سنجیدہ طبقے کے ساتھ مل کر کریں جس طرح ادبی سرگرمیاں بھارت و پاکستان کے درمیان ( باوجود جنگ کے خطرات کے ) رہتی ہیں۔ ادب سرحدوں کی حد بندیوں سے گزر جاتا ہے صدیوں سے رابطے کی زبانوں میں ڈھلتا، لوگوں کے درمیان سفر کررہا ہے جو ادب کی خوبی ہے۔ بالکل اسی طرح اردو ادبی سرگرمیاں صوبوں کے درمیان پھیلا خوف، تناؤ اور دوری کو پاٹ سکتی ہیں۔

حرکت میں برکت ہے کہ مصداق اپنے شہروں میں یہی سرگرمیاں مثبت رویے جنم دیتی ہیں جلد نہ سہی بادیر روزگار کے ذرائع کھینچ لاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہاں لوگوں میں ادب اور آرٹ کے فروغ کا کام بھی ہو سکتا ہے جس میں مصوری اور فوٹوگرافی کی نمائشیں پھل پھول سکتی ہیں۔

کراچی اور لاہور کے علاوہ پاکستان کے دو بڑے شہر پشاور و کوئٹہ سے خوف اور دوری وہیں کے لوگ ختم کرسکتے ہیں۔

ممکن ہے میری بات ان شہروں کے لئے کوئی ماورائی کہانی ہو لیکن یہ عملی طور سے کارگر ہے۔ موسیقی، آرٹ بشمول تھیٹر، ادب بھارت اورپاکستان کے درمیان دوستی و محبت کی فضا قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ سراہی گئی ہے تو یہ انتہائی مثبت پیغام دو چار صوبوں کے مابین کیوں نہیں ہو سکتا۔

کراچی میں نمائندگی ملنا اور ان کے اپنے شہروں میں ادبی فروغ اور فنون کی کارکردگی کا کوئی موازنہ نہیں۔

ہم سب ہی اس بات سے متفق ہوں گے، جو اپنے ملک کو کسی بھی اخلاقی و سیاسی و مذہبی انتشار پسندی سے پاک ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں کہ پشاور اور کوئٹہ کی مشکلات دہشت گردی کی وجہ سے زبوں ہیں لیکن کیا کراچی نے کم دہشت گردی جھیلی ہے۔ ایسے میں لاہور، فیصل آباد، ملتان، جامشورو، لاڑکانہ، بھاولپور، سکھر و حیدرآباد کیوں غیر فعال رہے؟ کوئی اپنے شہر کے ذمہ داران سے بھی سوال کر لے۔

زبوں حالی کا ذمہ دار صرف سیاست کو سمجھنے کے بجائے کچھ سوالات خود سے بھی بحثیت ذمہ دار شہری کے پوچھ لینا چاہیے۔ خاص کر لاہور جیسے (رنگین مزاج، خوش خوراک) شہر میں جہاں راوی چین ہی چین لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں لکھتا، وہ کیوں کر ادبی سرگرمیوں سے دور ہے۔ کیوں کر الحمرا آرٹ کونسل کسی افیمی کی طرح بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ کون سی غیر ثقافتی سرگرمیاں پنجاب کی ثقافتی سرگرمیوں پر حاوی ہیں؟ جہاں تقریبا ہر نوجوان موسیقی کا شوق رکھتا ہے۔ (سارا شہر تو مجروں کا دیوانہ نہیں ہو سکتا) ۔

وقت ہے کہ سنجیدہ طبقے کو اپنی شہری ذمہ داریاں نبھانی چاہیے اور ادبی سرگرمیاں شروع کرنی چاہیے۔

بالکل اسی طرح پنجاب کے دوسرے بڑے شہروں کو بھی فعال ہونا چاہیے محض فنکاروں کا کراچی یا لاہور منتقلی ان کی ترقی تو ہو سکتی ہے ادبی، فنونی ترقی نہیں۔ یہ منتقلی نہ تو ملکی سطح پر کوئی استحکام لا رہا ہے نہ ہی اس میں شہری روایات و ادب کا کوئی تحفظ ہورہا ہے۔ اپنا شہر چھوڑ کر دوسرے شہر میں ادب کی خدمت کرنا بذات خود انتہائی احمقانہ ہے خاص کر جب کہ آپ کا دعوی ہو کہ شہر میں سکون بھی ہے اور شہری فن کے مداح بھی ( مجروں کے رسیاوں کا فنون کے مداحوں سے کوئی موازنہ نہیں بلکہ فنون و مداحوں، دونوں کی تو ہین ہے اگر آپ مبالغہ آرائی کرتے ہیں تو تصحیح کر لیں۔ یہ بھرم آپ پر الٹا آ پڑا ہے۔ ) اس پر سالانہ سرگرمی بھی ایک ہو وہ بھی کراچی سے گئی ہوئی۔

ہر شہر کے بسنے والے اپنی ادبی، ثقافتی معاشرتی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی عمل و کردار کو فعال کرتے ہیں ترقی دیتے ہیں یہی شہری سرگرمیوں کا آغاز بھی ہوتا ہے اور ترقی بھی۔ لفظ ”شہری“ کی تعریف میری نظر میں اس سے کم بھی نہیں ( یہ شعور و آگہی سے اگے کی بات ہے، تہذیب کی بات ہے۔ ) ورنہ ساٹھ ستر سال پہلے تک کراچی صحرائی مٹی سے گھیرا مختصر آبادی پر مشتمل سمندر سے منسلک خشکی کا ٹکڑا تھا جہاں مہاجرین لٹے پٹے آ بسے تھے (جب ہی سے حرکت عمل میں آئی تھی جس نے شہر کو برکت دی تھی) جو اپنی شہری روایات، تہذیب ساتھ لائے تھے۔

(آپ تو ہرگز لٹے پٹے نہیں پھر اپنے شہروں کو حرکت کی برکت کی ترقی کیوں نہیں دیے سکتے۔ ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).