سیاست کوئی پارٹ ٹائیم جاب تو نہیں


نامور صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کی کہی ہوئی بات کسی جگہ سنی تھی کہ ”سیاست کوئی پارٹ ٹائم ملازمت نہیں کہ جب جی میں آیا یا ضرورت پڑی تو کرلی۔ ایک سرگرم سیاستدان بن گئے اور جونہی مطلب نکلا اور کوئی ڈیل یا ڈھیل ہوئی تو پھر اپنی پالیسی اور بیانات سے پیچھے ہٹ گئے“۔

سیاست کا تعلق کسی ایک محکمے یا کمپنی سے نہیں بلکہ عوام سے براہ راست جڑا ہوا ہوتا ہے۔ ہر ایک سیاستدان اپنی نظریاتی نکات سامنے رکھ کر اور پارٹی منشور دے کر عوام کا دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کی بنا پر الیکشن میں حصہ لے کر لوگوں سے ووٹ مانگتا ہے۔

پر حیرت کی بات ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں سیاست بھی ایک پارٹ ٹائم ملازمت بن گئی ہے جو صرف ضرورت پڑنے پر ہی کی جاتی ہے۔ تازہ مثال مسلم لیگ ن کی سامنے ہے۔ جب نواز شریف کا نام پاناما لیکس میں آنے کے باعث ان کو اپنی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا تو پارٹی رہنماؤں اور خود پارٹی سربراہ میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ ہی تبدیل ہوگیا۔ ”مجھے کیوں نکالا“ سے لے کر، ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعروں کے ساتھ وہ مزاحمتی سیاست کرنے لگے۔

اور ہر عام پاکستانی سوچنے لگا کہ پاکستان میں سیاست واقعی انقلابی ہوتی جا رہی ہے کیونکہ پنجاب کا ہی ایک سیاسی لیڈر پنجابی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل کیے بغیر عوام کے ووٹوں کو عزت دینے کی بات کر رہا ہے۔ وہ بنا کسی جھکاؤ کے ملٹری کے سویلین تعلقات پر برتری کو سری عام اچھال رہا ہے۔ نہ صرف اتنا پر مسلم لیگ ن کی جانب سے خلائی مخلوق کا نام لے کر وہ سب باتیں بھی کہی گئیں جو کوئی عام شہری کہتا تو را کا ایجنٹ کہلاتا اور گمشدہ ہوچکا ہوتا۔

خیر یہ بات تو چھوڑیں پر نواز شریف کے ساتھ ان کی دختر مریم بی بی بھی اچانک سے ٹکراؤ کی سیاست کرنے کے لیے سرگرم ہوگئیں۔ سب یہ امید کرنے لگے کہ یہ باپ بیٹی اپنے اس نظریاتی سیاست پر تاحیات قائم رہیں۔ چچا شہباز شریف کو تو اسی وجہ سے کھری کھوٹی بھی سننی پڑی کیونکہ وہ ہمیشہ یہی بات دھراتا کہ ٹھنڈی رہو اور ایسے نعرے نہ لگاؤ جو اور پھنس جاؤں۔ اس کے بعد نواز شریف، مریم نواز اور ان کے شوہر صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزائیں ہوئیں تو بھی باپ بیٹی جھکے نہیں پر اپنے بیان پر ڈٹ گئے۔

گرفتاری سے قبل مریم نواز نے نہ صرف ٹویٹر والی سیاست کی بلکہ عوامی جلسے جلسوں کی صدارت کی، پارٹی کی کارنر میٹنگس میں شریک ہوئیں اور ورکرز کے ساتھ بھی ملتی رہیں۔ ہم سب کو یہ یقین ہونے لگا کہ یہ پنجابی لیڈر اب پورے ملک کی عوام کے ساتھ ہیں۔ پھر ہونا کیا تھا اوپر سے سختیاں اور بڑھنے لگیں۔ ضمانت ملنے کے باوجود مریم نواز کو نیب نے حراست میں لے لیا۔ ادھر نواز شریف کی طبیعت دن بہ دن بگڑتی چلی گئی تو پھر ڈرامائی انداز میں نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو ضمانت ملی اور نواز شریف لندن علاج کے لیے روانہ ہوگئے۔

تب سے یہ علامات ظاہر ہونے لگیں کہ مسلم لیگ ن جو مزاحمتی سیاست پر اتر آئی تھی وہ اپنا مطلب پورا ہونے پر خاموش ہونے لگ گئی ہے۔ بیانات دینا تو دور کی بات  مریم صاحبہ تو ٹوئٹر پر بھی نظر نہیں آتیں۔ ایسا لگا کہ مریم صاحبہ کی غم و غصہ والی سیاست کے پیچھے جو مقاصد چھپے تھے وہ اب پورے ہوگئےہیں اور اس نے یہ سوچ کر خود کو مطمئن بھی کرلیا ہوگا کہ پارٹ ٹائم جاب کی اب کوئی ضرورت نہیں بس اپنی گھرداری سنبھال لوں۔

اور باقی روایتی سیاست اور بیانات کے لیے دیگر پارٹی راہنما اور چچا شہباز تو ہیں ہی تو اب میرا کیا کام کہ اپنی محنت صرف کروں۔ سیاست کو عوامی خدمت کا پیشہ سمجھا جاتا تو شاید یہ نہ ہوتا۔ نہ صرف اب بلکہ پہلے بھی جب جب نواز شریف پر کڑا وقت آیا تو اس کی مرحومہ زوجہ کلثوم بھی سرگرم ہوجاتی تھیں۔ جب معاملات ٹھیک ہوجاتے تو وہ بھی کم ہی نظر آتیں۔ یہی کچھ مریم نواز بھی کر رہی ہیں جو کہ سیاست کے اصولوں کی نفی ہے۔

جب آپ ایک سیاسی راہنما بن جاتے ہیں تو آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ آپ ہر برے اور اچھے وقت میں عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اپنے مسائل کو پشت پر رکھ کر عوام کے مسائل کو ترجیح دیں۔ یہاں پہلے اپنا سوچا جاتا ہے پھر اپنے خاندانوں کا عوام کا نمبر تو دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گننے کے بعد آتا ہے۔ تبھی تو سیاستدان مفلس سے امیر طبقے میں شامل ہوگئےہیں پر غربت کی چکی میں پستی ہوئی عوام اب بھی وہیں کی وہیں ہے۔

مسلم لیگ ن سے ملتا جلتا ہی کچھ حال مسلم لیگ ق کا ہے۔ جس کو وجود میں جنرل پرویز مشرف لایا تھا۔ سنہ 2008 کے انتخابات کہ بعد مسلم لیگ ق کہیں غائب ہوگئی تھی اور لگ ایسے رہا تھا کہ جس بات کے لیے یہ پارٹی بنی تھی وہ بات پوری ہوچکی ہے۔ مسلم لیگ ق بالکل غیرسرگرم ہوگئی تھی۔ پر جب گزشتہ برس انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ ق اقتدار میں آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں اور پنجاب حکومت میں اتحادی بنی تو نظر آنے لگا کہ اب اس پارٹی کو پارٹ ٹائم جاب کی ضرورت پڑ گئی ہے تبھی وہ فعال ہوئی ہے۔

اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور ایم کیو ایم کا بھی کچھ یہی قصہ ہے۔ جس جماعت کو اقتدار ملتے ہوئے دیکھتے ہیں چھلانگ لگا کر اسی کشتی میں سوار ہوجاتی ہیں۔ جیسے ان کی ملازمت قائم و دائم رہے۔ اس سے مماثلت رکھتی اور بھی بہت مثالیں ہیں جو یہ صاف ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے ملک میں سیاست عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں ہے بس اپنی غرض کہ لیے کی جاتی ہے۔ جب اپنا مطلب نکل جائے تو سیاسی جماعتیں پردے کے پیچھے چھپ جاتی ہیں۔ ایسی روایات کے جنم لینے سے ہی ہمارے ملک میں سیاستدانوں کے مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔ ان کے مقدمے عدالتوں میں سنے جاتے ہیں لیکن ایک عام آدمی کے نہیں۔ جب تک ہمارے ملک کا سیاستدان سیاست کو فل ٹائم جاب سمجھ کر اپنی خدمات عوام کو ارپن نہیں کرے گا تب تک ملک کا پہیہ ترقی کی راہ پہ گامزن نہ ہو پائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).