کیا ضیاالحق بروٹس کا دوسرا جنم تھا؟


اگرچہ ہم تاریخ دان نہیں لیکن تاریخ پڑھنے کا شوق ضرور رکھتے ہیں اور بعض ااوقات انکشاف ہوتا ہے کہ گزری ہوئی تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتے مشہور عالم کردار کہیں نہ کہیں اپنے ارد گرد پھر سے دیکھنے کو مل جاتے ہیں ، پہچاننے کے لئے چشم بینا چاہیے بس!

ہمیں سیزیرین ڈلیوری پہ درس دینا تھا۔ سوچا ذرا ریسرچ کی جائے کہ اس نوع کی ولادت کو سیزیرین کیوں کہا گیا اور کب کہا گیا؟

کہا یہ جاتا ہے کہ رومن تاریخ کے مشہور کردار جولیس سیزر کی ولادت غیر طبعی طریقے سے ہوئی اور اس کے نام کی مناسبت سے سیزیرین کا نام منظر عام پہ آیا۔ گو کہ بہت زیادہ شواہد اس کے حق میں نہیں ہیں پھر بھی نام کی مشابہت کی وجہ سے یہ قرین قیاس سمجھا جاتا ہے۔

جولیس سیزر عیسوی دور سے پہلے روم کا طاقتور ترین جنرل جو اپنی فتوحات اور ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے عالم میں آج بھی پہچانا جاتا ہے۔ایک اور وجہ شہرت مصر کی حسین اور باآثر ملکہ قلوپطرہ سے رومانوی تعلق بھی تھا جو بہت سی فلموں کا موضوع بنا۔ قلوپطرہ اور سیزر کا بیٹا بھی سیزیرین کہلایا ۔

سیزر نے سیاست اور میدان جنگ میں اپنے ہنر کو استعمال کرتے ہوئے روم میں کلیدی حیثیت حاصل کر رکھی تھی۔ سیزر نے جب اپنے پرانے ساتھی اور بعد میں حریف پومپی کے خلاف جنگ جیتی تو دستور دنیا کے مطابق طاقت کے پروانے گرد جمع ہونے لگے۔ پومپی کے ایک ساتھی بروٹس نے اپنی وفاداری تبدیل کر کے سیزر کا قرب حاصل کیا اور مختلف حربے اختیار کر کے اس حد تک اعتماد حاصل کیا کہ سیزر کے مقربین میں شامل ہو گیا۔

سیزر کے بڑھتے ہوئے دائرہ اختیار اور طاقت کی وجہ سے ارکان پارلیمنٹ خوش نہیں تھے اور جیسا کہ چلن ہے کہ چھٹکارا پانے کا طریقہ ایک ہی ہوا کرتا ہے کہ سانس کی ڈور کاٹ ڈالی جائے۔ سو اکثریت نے اسے صفحہ زندگی سے مٹانے کا منصوبہ بنایا۔

پندرہ مارچ کا دن سیزر کے لئے امتحان ٹھہرا۔ ایک طرف کاہنوں کی پیشن گوئیوں کی دبی دبی خلش اور دوسری طرف چاہنے والی بیوی کا کچھ اشارے دیتا خواب۔ کیلپرینا مصر تھی کہ سیزر کو اس دن پارلیمنٹ نہیں جانا چاہئے کہ اس نے سیزر کو خون میں لت پت دیکھا ہے۔

“میں نے تمہیں خون میں نہائے دیکھا ہے تمہارے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں، اور میری چھٹی حس اس خواب کی سچائی کا اعلان کر رہی ہے۔ تم آج کا اجلاس ملتوی کر دو”

کاہن بھی پندرہ مارچ کو سیزر کے لئے بھاری قرار دے چکے تھے سو سیزر شش و پنج میں تھا کہ دونوں کو جھٹلائے یا آنے والے وقت کی چاپ پہ ایمان لے آئے۔

ایسے میں بروٹس نے اس کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا،

 ” کیا آپ کی عظمت ان فرسودہ پیش گوئیوں اور خوابوں پہ یقین رکھنے کی اجازت دیتی ہے؟”

اور پھر کیا ہوا؟ بروٹس نے سیزر پر وار کیا تو سیزر نے یہ کہتے ہوئے اپنی تلوار پھینک دی “بروٹس تم بھی؟ اسے دوست پر ایسا اعتماد تھا کہ اپنی جان جاتے دیکھ کر بھی اس پر ہاتھ اٹھانے پر آمادہ نہیں ہو سکتا تھا۔ بروٹس کا ارادہ البتہ مختلف تھا اور وہ تاریخ میں دوست کے قاتل کے طور پر جانا گیا۔

ہم نے سیزر کی موت بیان کر دی لیکن سیزیرین ڈلیوری اور جولیئس سیزر میں تعلق قائم نہ کر پائے۔ اس کے لئے ہمیں شیکسپیئر کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ شیکسپیئر کے المیہ ڈرامے میکبتھ کا پانچواں ایکٹ ہے اور آٹھواں منظر۔ میکبتھ نے جس شاہ ڈنکن کو قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، اس کا بیٹا میکڈف اس کے مقابل تلوار کھینچے کھڑا ہے۔ دیکھیئے دونوں میں کیا مکالمہ ہوتا ہے۔

MACBETH

I bear a charmèd life, which must not yield

To one of woman born.

MACDUFF

Despair thy charm,

And let the angel whom thou still hast served

Tell thee, Macduff was from his mother’s womb

Untimely ripped.

میکبتھ کو کاہنوں نے بتا رکھا ہے کہ کسی عورت کے بطن سے جنم لینے والا انسان اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکے گا۔ میکڈف استہزا سے جواب دیتا ہے کہ جاؤ اور اس کاہن کو بتا دو کہ میکڈف کو اپنی ماں کا پیٹ کاٹ کر پیدا کیا گیا تھا۔

لیجئے یہ تو رہا، ادب میں سیزیرین ڈلیوری کا پہلا حوالہ۔ لیکن اب ہماری سوچ بھٹکتے ہوئے کہیں اور نکل گئی تھی۔ صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے ہم بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں پاکستان تک آ پہنچے۔ کچھ کردار نظر آئے جہاں تاریخ اپنے آپ کو پھر سے دہراتی نظر آئی۔

سیزر کی جگہ ایک منتخب وزیر اعظم نے لی اور بروٹس کا کردار نبھایا ایک ایسی شخصیت نے جو بھٹو کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہت سے مراحل طے کر رہی تھی۔

اٹک سازش کیس میں مجرموں کو انتہائی سزائیں سناتا ہوا، مصنوعی انکسار کے لبادے میں لپٹا، ٹھنڈا لہجہ اور عام سی شخصیت کا مالک جس نے بھٹو جیسے ذہین شخص کی قربت حاصل کر کے نہ صرف اعلیٰ کمانڈر کی پروموشن حاصل کی بلکہ صرف پندرہ ماہ کے اندر اس شخص کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا۔ پھر شطرنج کے مہرے ایسے ترتیب دیے کہ نتیجہ صرف موت تھا۔

بھٹو بھی سیزر کی طرح آخر دم تک اپنی مردم شناسی پہ حیران وپریشان ہو کے یہی کہتے ہوئے نظر آئے،

“تم؟ جنرل تم؟ “

وقت کی بساط پہ مہرے بدل جایا کرتے ہیں، کھیل وہی رہتا ہے۔ طاقت کا کھیل، ضمیر فروشی کا کھیل، پیچھے سے وار کرنے کا کھیل۔ تاریخ سے سبق سیکھنا ایک مشکل امر ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دہراتی بھی ہے لیکن طاقت کا نشہ اور جاہ و حشم کی تمنا دیکھنے اور سمجھنے کی قوت سلب کر لیا کرتی ہے۔

کہیے کیا واقعی یہ سیزر اور بروٹس کا دوسرا جنم تھا؟ اس پر پڑھنے والوں کی اپنی رائے ہو سکتی ہے لیکن ہمیں جرم کی گواہی کے لئے بھی شیکسپیئر کا ڈرامہ میکبتھ ہی یاد آیا۔ اتفاق سے پانچواں ایکٹ ہی ہے البتہ پہلا منظر اور لیڈی میکبتھ نیند میں چلتے ہوئے اپنے احساس گناہ کی گواہی خود دے رہی ہے کہ اس نے میکبتھ کو شاہ ڈنکن کے قتل پر آمادہ کیا تھا۔ فرائیڈ نے لاشعور اور تحت الشعور کے تصورات بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں دریافت کئے۔ عظیم شیکسپیئر کا فن سولہویں صدی میں ذہن انسانی کے ان گوشوں کی غواصی کر چکا تھا۔

LADY MACBETH: Out, damned spot! out, I say!

Here’s the smell of the blood still: all the perfumes of Arabia will not sweeten this little hand. Oh, oh, oh!

لیڈی میکبتھ نیند کے عالم میں اپنے ہاتھوں پر ڈنکن کے لہو کے دھبے دھونا چاہتی ہے لیکن اسے اپنے نتھنوں میں مسلسل لہو کی بو آ رہی ہے اور وہ تاسف میں بڑبڑاتے ہوئے اقرار کرتی ہے کہ عرب کے تمام عطر اور بخور مل کر بھی اس کے ہاتھ صاف نہیں ہو پائیں گے۔ اگر آپ کو کبھی اسلام آباد کی فیصل مسجد میں جانے کا اتفاق ہو تو شاید آپ کو وہاں ایسی کوئی سرگوشی سنائی نہ دے لیکن وہاں موجود قبر پر چھائی ویرانی میں آپ کو بروٹس اور میکبتھ کے انجام کی جھلک ضرور نظر آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).