پسماندہ بلوچستان پھر سے قربانی کا بکرا بن رہا ہے


2013 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن اورقوم پرست جماعتوں نے مل کر صوبائی حکومت بنائی۔ مری معاہدے کے تحت پہلے ڈھائی سال وزیراعلیٰ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ بنے اور اس کے بعد وزارت اعلیٰ کا عہد ہ مسلم لیگ ن کے نواب ثناءاللہ زہری کو ملا۔ حالات صیح چل رہے تھے کہ اچانک ن لیگ کے بعض وزراءاور اراکین اسمبلی کو ایسا لگا کہ موجودہ حکومت صوبے کے لئے بہتر نہیں ہے اور وہ حکومت کے خلاف ہو گئے۔ ن لیگ کے منحرف اراکین نے اپوزیشن جماعتوں جمعیت علماءاسلام، بلوچستان نیشنل اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔

اپوزیشن جماعتوں اور ن لیگ کے منحرف اراکین نے کہ الزام لگایا کہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی اور حکومت کی نا اہلی سے ترقیاتی فنڈز کے اربوں روپے لیپس ہوگئے ہیں جس سے صوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد نواب ثناءاللہ زہری نے مجبوراً استعفیٰ دیا اور بعد میں 500 ووٹ لینے والے میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ منتخب کرایا۔ میرعبدالقدوس بزنجو کو ن لیگ کی اتحادی جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے منحرف اراکین نے بھی ووٹ دیا۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے منحرف رکن اسمبلی کو بعد میں الیکشن کمیشن نے نااہل بھی کیا۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے نئی جماعت کی داغ بیل بھی ڈالی گئی۔ بعد میں اس وقت کے وزیرمملکت برائے پیٹرولیم جام کمال نے بھی یہ کہہ کر وزارت سے استعفیٰ دیا کہ ن لیگ کی حکومت بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں اور وہ بھی بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس جماعت میں ہردور میں اقتدار میں شامل ہونیوالے خاندانوں کے افراد نے شمولیت کی۔

ان خاندانوں میں شامل افراد جماعتوں کا حصہ رہے ہیں۔ نوے کی دہائی میں ن لیگ میں تھے، پاکستان مسلم لیگ ق کے قیام کے بعد اس میں شامل ہوئے تھے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو یہ ان کے اتحادی بنے۔ ق لیگ جب زوال پذیر ہوئی تو یہ واپس ن لیگ میں شامل ہوئے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام کے بعد جام کمال سمیت مختلف رہنماؤں نے بارہا کہا کہ قومی جماعتیں بلوچستان کو ہر دور میں نظر انداز کرتی آرہی ہیں۔ ہم ایسی کسی جماعت کا ساتھ نہیں دیں گے جو بلوچستان کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہو۔

2018 کے عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کو صوبے بھر میں شاندار کامیابی ملی اور سابق وزیرمملکت برائے پیٹرولیم جام کمال بلوچستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ حکومت کے قیام کے 16 ماہ گزرگئے ہیں لیکن صوبے میں اب تک کوئی ایسا عوامی فلاح وبہبود کا منصوبہ شروع نہیں ہوسکا جس سے عوام کو ایسا محسوس ہو کہ ان کی زندگی میں تبدیلی آسکتی ہے۔ حکومت میں شامل جماعتوں، کابینہ اراکین یا پھر عام مرکزی وصوبائی رہنماؤں سے جب بھی ان کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ ”بلوچستان کی پسماندگی کی ذمہ دار سابق حکومتیں ہیں“ کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔

گزشتہ 16 ماہ میں بلوچستان کے دور درازعلاقے تو درکنار کوئٹہ میں بھی کوئی خاص ترقیاتی منصوبے پر کام نہیں ہوا ہے۔ صوبائی حکومت پینے کے صاف پانی کا مسئلہ تک حل نہیں کرسکی ہے۔ ویسے صاف پانی ان لوگوں کو چاہیے جہاں کم از کم پانی تو آرہا ہو یہاں گندا پانی بھی نلکوں میں نہیں آتا۔ صوبائی وزیر نے کھلی کچہریاں لگائیں۔ لوگوں کی شکایات سنیں، انہیں مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ واسا اہلکار کو جھاڑ بھی پلائی لیکن پانی کامسئلہ حل نہیں کرسکے۔

البتہ ٹینکرز مافیا کے غیر قانونی کاروبار کو جائز قرار دینے کی ایک کوشش ضرور کی گئی۔ ٹینکر ز مافیا کو باقاعدہ ریٹ بھی دیے گئے۔ جس علاقے میں ٹینکر پانی آٹھ سور وپے میں پہنچایا جاتا تھا حکومت نے ان کو نیا ریٹ دیتے ہوئے ایک ہزار روپے مقرر کیا۔ شدید سردی میں بلوچستان کے عوام کو اپنے ہی صوبے سے نکلنے والی گیس بھی میسر نہیں۔ کوئٹہ شہر میں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے۔ آئے روز احتجاج ہوتے ہیں۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ بھی بلاک کی گئی لیکن مسئلہ تاحال حل نہیں ہوسکا۔

گزشتہ روز وزارت خزانہ نے رواں مالی سال پہلی سہ ماہی کی مالیاتی کارکردگی رپورٹ جاری کر تے ہوئے کہا کہ جولائی تا ستمبر کے دوران وفاق کی مجموعی آمدن 1489 ارب روپے رہی جبکہ اخراجات 1775 ارب روپے رہے، یوں 286 ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ خسارے کو کم کرنے کے لئے صوبوں نے 154 ارب روپے کا سرپلس بجٹ دے کر وفاق کو بڑے مالیاتی خطرے سے بچالیا۔ اس میں سب سے زیادہ حصہ ملک کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان کا شامل تھا۔ بلوچستان نے اپنی آمدن کا سب سے زیادہ حصہ زیادہ یعنی 37 ارب تیس کروڑ روپے وفاق کو واپس کیا ہے جو صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا 43.4 فیصد حصہ بنتا ہے۔ ملک کے سب سے زیادہ پسماندہ صوبے نے اپنے وسائل کا انتہائی معمولی حصہ 4.3 فیصد حصہ ترقیاتی اخراجات کی مد میں خر چ کیے ہیں جو صرف تین ارب ستر کروڑ روپے بنتے ہیں

خیبر پختونخوا نے اپنی آمدن کا 38 فیصد حصہ جبکہ پنجاب حکومت نے 21 فیصد حصہ وفاق کے حوالے کیا ہے۔ اس کے برعکس سندھ جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہے اس نے اپنی آمد ن کا صرف 18 فیصد کو دیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ بلوچستان جو سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے اپنی آمدن کا سب سے زیادہ حصہ اسے وفاق کو دینے کی کیا ضرورت تھی، کیا بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ کیا ہمیں ترقیاتی کاموں کی ضرورت نہیں ہے؟

کیا ہمارے لوگوں لو ملک کے بڑے صوبے کے لوگوں سے زیادہ سہولیات حاصل تھیں کہ ہماری حکومت نے زیادہ قربانی دی؟

وزیراعلیٰ ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کیا بلوچستان کو ترقی نہیں چاہیے، کیا بلوچستان کے لوگوں کو بنیادی سہولیات کی ضرورت نہیں۔ کیا ہم ساری زندگی ایثارقربانی کی نئی مثالیں قائم کرتے رہیں گے۔ کیا آپ یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ پسماندہ صوبے کے عوام ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).