بارہویں عالمی اردو کانفرنس


آرٹس کونسل آف پاکستان کے ہال میں بارہویں اردو کانفرنس کے حوالے سے نشستیں جاری تھیں ادب زبان اور فن پر گفتگو ہورہی تھی۔ ادب اور کلچر میں آنے والی تبدیلیاں، پاکستان کے مختلف صوبوں کی ثقافت، صحافت کتنی آزاد ہے سمیت چار روزہ کانفرنس میں مختلف موضوعات پر بحث ہوئی۔ شاعری کی محفلیں بھی سجیں۔ روشنیاں کا شہر کراچی عالمی اردو کانفرنس کی وجہ سے ستاروں سے جگمگا رہا تھا۔

اس وقت آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں پختون ثقافت کیا ہے کہ عنوان سے گفتگو جاری تھی۔ پروفیسر اباسین یوسفزئی اور قادر خان صاحب پختون ثقافت کے اہم پہلو اجاگر کررہے تھے۔ پروفیسر آباسین یوسفزائی نے اپنی پریزنٹیشن میں پختونوں کے روائیتی رقص اتن کے بارے میں بتایا کہ اس رقص کے دوران رقص کے تمام شرکا ایک ہی وقت میں اپنے ہاتھوں میں موجود ہتھیار سے گولی چلاتے ہیں، ایک دم ایک ساتھ گولی چلانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ قوم تفریح کے دوران بھی اپنے دفاع و پھرتی سے غافل نہیں، اور ایک ساتھ گولی چلا کر یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ ہم ایک ساتھ ہوں تو زیادہ طاقتورہیں۔

آرٹس کونسل کے ہال میں اتن کی ویڈیو دکھائی جارہی تھی اور میری آنکھیں نم تھیں۔ کتابوں میں پڑھا سب کچھ میری آنکھوں کے آگے گھوم رہا تھا، پاکستان کا ماضی حال، مستقبل سب میں اس اتن میں دیکھ رہا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد، مسلمانوں کی شہادتیں، کٹے لاشے، مہاجرین کی آمد، سندھ کے لوگوں کا انہیں گلے لگانا میں سب دیکھ رہا تھا۔ کتنی حسین ثقافت تھی ہماری۔ جب ہم ایک تھے۔ جب تک ہمیں وہ ثقافت یات تھے۔ جب تک ہم بٹے نہیں تھے۔ جب تک محمد علی جناح ہم سے بچھڑے نہیں تھے، جب تک لیاقت علی خان کو شہید نہیں کیا گیا تھا۔ کتنا حسین تھا سب۔

قیا م پاکستان کے وقت ہم سب ایک تھے، پختون ثقافت، بلوچ ثقافت، پنجابی و سندھی ثقافت اور دوسری اقوام کی ثقافتیں پھولوں کی مانند پاکستان کے گلدستے میں سجھی تھی۔ پھر اچانک یہ ملک سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جو آیا اس نے اپنی سیاست کے لئے اس قوم کو تقسیم کیا۔ 1971 میں پاکستان کا ایک بازو کٹ کر جدا ہوا ایسا لگتا تھا شاید اس سانحہ کے بعد ساری قوم ایک ہوجائے گی لیکن ہر دور میں اس قوم کے لوگوں کو تقسیم در تقسیم کیا گیا۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، کردار کشی کرنا الزامات لگانا اور ملک لوٹنا شاید ہمارے بڑوں کا کلچر بن گیا اور ان کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ہم اپنی حسین ثقافت کو فراموش کرگئے۔

ثقافت کسی معاشرے کے طرز فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے کسی قوم کو غلام بنانے کے لئے اس سے جنگ لڑنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ پھر پاکستان سے جنگ لڑنا انتہائی مشکل اس لئے سمجھا جاتا ہے کیوں کہ یہاں سوریا بادشاہ کی قوم سندھی موجود ہے، یہاں بہادر پختون بلوچ موجود ہیں یہاں پنجابی موجود ہیں جو اس دھرتی پر جان دینا ایمان سمجھتے ہیں یہاں لیاقت علی خان شہید کے وارث موجود ہیں۔ ایسے میں آسان ہوتا ہے کہ ایسی قوم کو اس کی ثقافت سے دور کردیا جائے اور اسے ذہنی غلام بنا دیا جائے۔

پاکستانی قوم کے ساتھ یہی ہوا۔ ہمیں یہ باور کرایا گیا کہ پشتون دہشت گرد ہیں، سندھی و بلوچی قوم پرست جب کہ پنجابی صرف اپنا فائدہ سوچنے والے ہیں، غیر ملکی ڈراموں و فلموں کی بھرمار نے ہمیں غیر ملکی ثقافت کا مرغوب بنا دیا۔ جب مشرقی تہذیب مغربی تصورات کے زیر اثر آئی تو نہ صرف معاشی و اقتصادی، معاشرتی و سیاسی اور زندگی کے جملہ شعبہ جات میں جہاں زوال کا شکار ہوئی وہاں آج علمی و فکری اعتبار سے بھی زوال کا شکار ہوچکی ہے۔ خصوصاً تعلیم اور ذرائع ابلاغ کا سہارا لے رہے ہیں۔

علمی میدان میں بھی غیروں کی تقلید کرنے سے ہمارا تعلیمی نظام تباہ ہوکر رہ گیا۔ ایسے میں آرٹس کونسل آف پاکستان کے منتظمین کی جانب سے ایسی کانفرنس کا انعقاد ادبی میدان میں جنگ کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ بارہویں اردو کانفرنس میں ہونے والی نشستوں و گفتگو نے نا صرف پاکستانی ثقافت کو ایک بار پھر اجاگر کیا بلکہ پاکستانیوں کے دلوں میں اپنی ثقافت سے محبت کو بھی اجاگر کیا۔ پاکستان بھر میں ایسی ادبی کانفرنسز کا انعقاد مستقل بنیادوں پر پر ہونا چاہیے۔

سال میں صرف ایک کانفرنس اردو اور ثقافت کے عاشقوں کی پیاس نہیں بھجا سکتی، حکومت کو اس طرح کی نشستوں کے حوصلہ افزائی کرنا چاہیے اور منتظمین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ تبدیلی سرکار سب کچھ تبدیل کرنے کی کوشش میں لگی ہے، اگر ایک کوشش یہ بھی کرلی جائے کہ پاکستان کی ثقافت کو اسکولوں، کالجوں اور جامعات کی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے کام کیا جائے تو یہ موثر ثابت ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان خود تو شلوار قمیض اور پشاوری چپل پہنتے ہیں لیکن اس لباس کی محبت ہر پاکستانی کے دل میں ڈالنا بھی لازم ہیں۔ ہم اپنی ثقافت سے اور ادب سے جس تیزی سے دور ہورہے ہیں اگر ایسا ہوتا رہا تو شاید تاریخ ہمیں یاد نہ رکھے۔ نصاب میں مثبت تبدیلی کی بھی اشد ضرورت ہے جس سے ہمیں اسلام وپاکستان کی اصل پہچان سے روشناس کرایا جائے۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ انفرادی سطح پر والدین بچوں کو اپنی ثقافتی تعلیمات سے آگاہ کریں اور دوسری طرف اجتماعی سطح پر حکومت ایسے پروگرامز کی سرپرستی کرے جو ہماری ثقافت کو اجاگر کرتے ہوں۔

ایسے پروگرامز کا انعقاد بھی کروایا جائے جو اسلامی ثقافت کو اجاگر کریں۔ نیز ہمارے علماء حضرات ہماری ثقافت کو دینی تعلیمات سے ہم آہنگ کرکے اس طرح سے پیش کریں کہ نوجوان نسل کا زیادہ سے زیادہ رجحان اسلامی ثقافتی تعلیمات کی طرف ہو تاکہ نوجوان نسل کا اپنی ثقافت پر اعتماد بڑھے اور علمی و فکری پختگی حاصل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).