جب لال لال لہرائے گا


کل ننگرپارکر سے منتخب سندھ اسمبلی کے میمبر، مہا کرپٹ، لوٹا ابن لوٹا، سندھ کا سب سے بڑا کنٹریکٹر، FWO سے کارونجھر کی لیز چھڑوا خود تھر کے بے تاج بادشاہ بننے کے خواب دیکھنے والا، عرب شہزادوں کا خاندانی غلام، جناب قاسم سراج سومرو نے خبر بریک کرنے سے پہلے لکھا ”جب سرخ  ہوگا”۔

مجھے اسی وقت لگا اب ہماری یوتھ کو گمراہ کرنے کا پلان تیار ہو چکا ہے۔

اور خبر ٹویٹ کی کہ ”سندھ کابینہ نے طلبہ یونین کی منظوری دے دی ہے۔

اس کے بعد یونیورسٹی کے اساتذہ کی اجارہ داری ختم ہوگی۔ اب ان کو کرائیم پارٹنر مل جائیں گے۔ پہلے چھپ کر اولاد مثل طالبات کو درندگی کا نشانہ بناتے تھے اور ہاسٹلوں سے کبھی نائلہ رند تو کبھی نمرتا کے قوم سے فریاد کرتے جنازے اتھتے تھے وہاں اب بنت حوا مشترکہ بھیڑیوں کی شکار ہوں گی۔

پہلے اساتذہ فیل کرنے کے بہانے سے بلیک میل کرتے تھے اب یونین کے سربراہان بھی عزتوں کی بولیاں لگائیں گے۔

وہ دن ہم ابھی بھولے نہیں جب عاشق جونیجو کو ایک تنظیم کے غنڈوں نے یونیورسٹی میں دوڑا دوڑا کر شہید کیا تھا، وہ فیکلٹی ڈین کے آفس میں امان لینے کے لیے چھپتا ہے لیکن میڈم جسقم کے ان کامریڈ لڑکوں کو قانون کے حوالے کرنے کے بجائے منتیں کرتی ہیں کہ میرے آفس میں گولی مت ماریں باہر بھلے قتل کر دو۔

اس جیسے درجنوں واقعات ہوئے کئی ماؤں کے لال ڈگری کی بجائے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے ساتھ گھروں کو بھیجے گئے۔

یونیورسٹی کے پروفیسرز، ڈین، وی سی، بھتہ دے کر اپنی عزت بچاتے رہے۔

قوم کو مبارک ہو اب وہی انقلاب آنے والا ہے۔

اب سندھ یونیورسٹی گن پوائنٹ پر ایک ایک ماہ کے لیے بند ہوگی اور لسانی بنیاد پر تنظیمیں بنیں گی، سیاستدان نوجوان نسل کو ذاتی مفادات کے لیے خوب استعمال کریں گے ”،

کسی کا پنجابی ہونا جرم بن جائے گا تو کسی کا مہاجر ہونا۔

رہزن اب ”وڈو“ کے نام پر گلو بٹ بنے پھریں گے، اور جان بوجھ کر سالہا سال فیل ہوتے رہیں گے، رہزنی کے مزے لینے کے لئے۔

اب رہزن رہبر کا لبادہ اوڑہ کر انتظامیہ کی ناک میں دم کرتے رہیں گے، نئے آنے والے لڑکوں کی عزتیں لوٹتے رہیں گے۔ اور جساف سپاف کے فلک شگاف نعرے لگا کر اپنے آقاؤں کی آشیرواد حاصل کرتے رہیں گے۔

اب یونیورسٹی کی پوائنٹس تعلیمی تفریحی ٹوئر کے بجائے پی پی پی اور سن کے سیاسی جلسوں میں استعمال ہوں گی۔

پاکستان توڑنے کے نعرے لگیں گے۔

سندھو دیش کا چورن خوب بکے گا۔

جی ایم شاہ کے پینافلیکس سے یونیورسٹی سجے گی۔

اب سائنسی علوم کی جگہ گولی چلانے کی تربیت دی جائے گے۔

پہلا پہلا مطالبہ، تعلیمی اداروں میں امن بحال کروانی والی رینجرز کے انخلاء کا ہوگا ”“

جس کے لیے سیاسی پنڈت، بھوتار، نوجوانوں کو اکسائیں گے اور پھر عوام کے پر زور مطالبے پر مجبوراً سندھ حکومت رینجرز کو تعلیمی اداروں سے نکال کر ”ادا“ ”بھاؤں“ مونچھوں کو تاؤ دینے والوں کے حوالے کرے گی۔

اور سیاسی پنڈت جاگیردار سندھی کو قوم تعلیم سے محروم رکھنے کے اپنے دیرینہ مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔

کیوں کہ کافی سالوں سے پڑھی لکھی نسل آگے آ رہی ہے، وڈیرے بھوتار کا بیٹا اب ایس ڈی ایم تو دور کی بات کلرک بھی نہیں بن سکتا ہے۔

ایک ڈسپینسر کا بیٹا جب جوڈیشل مجسٹریٹ بنتا ہے، ایک رٹائرڈ پرائمری ٹیچر کا بیٹا جب ایس ڈی ایم بنتا ہے ایک چائے فروش اور کھیتی باڑی کرنے والوں کے بچے جب اعلیٰ عہدوں پر پہنچیں گے تو ہمارے جاگیردار کی رات کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔

لیکن اب انہوں نے اس کا حل ڈھونڈ نکالا۔

اب قاسم سراج ٹھیکے لینے کے سرخ لہرائے کا انجیکشن تیار رکھے گا۔ پی پی اپوزیشن میں بیٹھنے کے لئے ابھی سے سپاہ تیار کر رہی ہے۔ خورشید شاہ، مولا بخش چانڈیو، جسقم والے بھی اپنے اپنے مطالبے منوائیں گے، آخرکار انہیں جو سرخ انقلاب سے پیار ہے ”“،

وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے اساتذہ کو ڈنڈا ڈولے کرنے والے حکمران جب طلبہ یونین کی بات کریں تو ان کی زبان کے بجائے ان کے مذموم عزائم کو دیکھیں۔

واہ رے میری سندھی قوم۔ آپ کو یہ غلامی کا طوق مبارک ہو۔

(مجھے سرخ یا سبز کے نعرے سے کوئی سروکار نہیں، میں جب سرخ طلبہ یونین کی مخالفت کرتا ہوں تو سبز کی بھی کرتا ہوں۔ یہ تجربات بھٹو کے دور سے دیکھتے آ رہے ہیں سوائے یوتھ کی بربادی کے اور کوئی فائدہ نہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).