جب تک جنتا بھوکی ہے


جنوبی ایشیا ء میں بسنے والے اربوں انسانوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات جو کہ ان کا بنیادی حق ہیں میسر نہیں ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، امن وامان انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ ایک صحت مند اور تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرے کے قیام کے لیے یہ لوازمات پورے کرنے ضروری ہیں۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ مگرافسوس ایسا نا ہوسکا اور پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی عوام کا ایک بہت بڑاحصہ آج کی جدید دنیا میں بھی ان سہولیات سے محروم ہے ستم یہ کہ ایک بہت بڑی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔

بد نصیبی اور بدقسمتی نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ دہائیاں گزر گئیں کتنی حکومتیں عوام کو سنہرے خواب دکھا کر برسراقتدار آئیں۔ جمہوری حکمرانوں نے بادشاہوں جیسی حکمرانی کے مزے لئے، وزیروں مشیروں اور درباریوں کی فوجیں جمع کیں۔ کوئی خود کو شیر شاہ سوری کہلوا کر خوش ہوا تو کوئی سیاست کا آئن سٹائن کہلایاتو کوئی انصاف کی حکومت قائم کرنے کے لئے تخت حکمرانی پر جلوہ افروز ہوا۔ سب کے اچھے دن آئے بلکہ کچھ تو خوش نصیب ایسے تھے جن کے بار بار اچھے دن آئے اگر کسی کے اچھے دن نہیں آئے تو وہ صرف عام جنتا تھی۔

عام جنتا جو ایک بہتر زندگی کے خواب آنکھوں میں لئے آوئے ہی آوئے اور جاوئے ہی جاوئے کے نعرے لگا تی رہی۔ ان لیڈروں کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر کوڑے کھاتی رہی، جیلوں میں سزائیں کاٹتی رہی، پھانسی گھاٹ کے تختے پر پہنچ کربھی ان کی عقیدت اپنی لیڈرشپ سے کم نہیں ہوئی حتی کہ جلاد کے لیور کھینچ لینے کے بعد اس امید پر پاوں مارتے رہے کہ شایداُن کے پاوں کہیں ُان کی امیدوں اور خوابوں کی سرزمین سے جالگیں۔ مگر یہ پاوں ہوا میں معلق ہی رہے اور اُن کو ایک لمحے کے لیے بھی زمین میسر نا ہوسکی۔

کیسے ہوسکتی تھی اور کیوں ہوتی۔ یہ تو اس عوام کی یک طرفہ محبت تھی جس کی ان کو سزاملی۔ ان سے کون محبت کرتا ہے؟ چاہے میں غلط ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ سیاسی قیادت سے محبت اور عقیدت صرف اور صرف غریب آدمی کا مسئلہ ہے پیسے والی قیادت کے مسائل کچھ اور ہیں۔ غریب آدمی اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ہاتھ پاوں مار رہا ہے اور حکمران طبقہ اور سیاسی قیادتیں اپنی بادشاہتوں کے لئے لڑرہے ہیں۔

ہر نیا آنے والا حاکم اپنے پیش رو پر کرپشن، نا اہلی کے الزامات لگاتا ہے اور پھر جب کوئی دوسرا نیا حاکم آتا ہے وہ سابقہ پر وہی الزام دہراتا ہے اور قرض پر قرض لینا شروع کردیتا ہے۔ گزشتہ تیں دہائیوں کا اگر بغور جائزہ لیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی ڈرامہ نئے کرداروں کے ساتھ رچایا جاتا رہا ہے اور ہم اس نوٹنکی میں اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ ہمیں کسی مرحلے پر یہ احساس نہیں ہوتا یہ کہانی تو ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔

کیا ہم سادہ ہیں یا پھر اس ڈرامے کے کردار بہت جاندار ہیں جو بھی ہے معاملات وہیں پررکے ہوئے ہیں جہاں پہلے دن تھے۔ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی تیس سال قبل بھی ممکن ناتھی اور آج بھی نہیں ہے۔ آج بھی پاکستان کی عوام قابل علاج بیماریو ں کے باوجود سسک سسک کر جان دے رہی ہے۔ ہم اپنے پیاروں کو صحت کی ناکافی سہولیات پر زندگی کی بازی ہارنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی تلے دفن کرتے ہیں اور خود کو دلاسا دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی رضا تھی۔

کوئی شک نہیں کہ موت کا وقت مقرر ہوچکا ہے مگرسوال یہ ہے کہ کیا ہسپتال میں مرنے والے مریض کو صحت کی تمام سہولیات دستیاب تھیں؟ اگر نہیں تھیں تو یہ سہولیات کس نے مہیا کرنا تھیں؟ کس کی ذمہ داری تھی؟ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کربتائیں کہ کیا یہ میٹرو، اورنج لائن یاپھر بی آر ٹی ہماری ضروریات ہیں؟ یا پھر ہماری ضروریات تعلیم، صحت اور روزگار ہیں، اور پھر ان ترجیحات کا تعین کون کرئے گا؟

کرپشن کے خلاف نعرہ لگاتی ہوئی موجودہ حکومت احتساب کے نام پر لوٹی ہوئی دولت وصول کرنے کی بجائے ان بیماروں کو بہتر طبی سہولیات کے حصول کی خاطر ملک سے باہر جانے کے اجازت نامے جاری کررہی ہے۔ کیا احتساب ایسا ہوتا ہے؟ اچھا اس کو چھوڑ دیں ملکی معیشت کی بات کرتے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کی معاشی بداعمالیوں کو ٹھیک کرنے کے لئے ایک بارپھرماضی کی روایات کے مطابق موجودہ حکومت بھی عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لے رہی ہے۔

ہر بار قرضے کی قسط وصول کرتے ہوئے حکومتی معاشی ماہرین بتاتے ہیں کہ معاشی اعشاریے مثبت ہورہے ہیں۔ اپنے قارئین سے ایک سوال پوچھوں گا کہ ایمانداری سے جواب دیں کہ موجودہ حکومتی اعلانات کے مطابق اس نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کر دیا ہے اور تجارتی خسارے میں بھی کمی کی ہے۔ بیلنس آف پیمنٹ کے خطرے کو بھی عارضی طور پر ٹال دیا گیا ہے جیسی باتیں کیا آپ کو سمجھ آتی ہیں؟ چلیں یہ بتادیں کہ کیا یہ معاشی اصطلاحیں عام آدمی کو سمجھ میں آتی ہیں۔

میں دعوئے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عوام کی اکثریت ان معاشی موشگافیوں سے ناآشنا ہے۔ اور وہ اس کو شاید سمجھنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ میری گلی میں رہنے والا اللہ ڈتہ جو دیہاڑی دار مزدور ہے کہ مطابق بھائی جی حالات بہت خراب ہیں ایک تو مزدوری ہفتے میں ایک یا دو روز ملتی ہے دوسرا مہنگائی اتنی ہو گئی ہے کہ دو وقت کے کھانے کو میسر نہیں ہے۔ رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے نکال دی ہے۔ یہ ہے عام آدمی کی وہ گفتگو جو وہ ہر اس شخص کے سامنے دہراتا ہے جس کو وہ اپنا ہمدرد سمجھتا ہے۔

حکومتی ارباب اختیار سے یہی کہنا ہے کہ سرکارہوش کے ناخن لیں اوریاد رکھیں کہ تمام تر مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود جب تک جنتا بھوکی ہے یہ معاشی آزادی جھوٹی ہے۔ جو کچھ کرنا ہے جلدی کریں عوام کی حالت پر ترس کھائیں۔ ورنہ وقت ریت کی طرح آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).