رابن ہڈ اب چور نہیں رہا، مخیر کاروباری شخصیت کہلاتا ہے


انگریزی کا محاورہ ہے کہ ہر چور میں رابن ہڈ کی روح موجود ہوتی ہے۔ ویسے تو رابن ہڈ جو لوٹ مارکرکے مستحق اور نادار افراد کی مدد کرتا ہے محض ایک فلمی کردارہے مگر اس محاورے کے مطابق ہر چور اندر سے رابن ہڈ ہوتا ہے جو چوری کر کے دوسروں کی مدد کرتا ہے۔ رابن ہڈ تو امیروں سے لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرنے والے کو کہا گیا تھا اور اگرغریبوں کو لوٹ کر امراء اور اشرافیہ کو نوازنے والے چور کو بھی رابن ہڈ ہی سمجھا جائے تو ہم یقینی طور پر رابن ہڈ کے دور میں جی رہے ہیں جہاں طرف اسی کا راج ہے۔

بھوکوں کے لئے دسترخوان، نمازیوں کے لئے مساجد، پرہیز گاروں کے لئے پند ونصا ئح کی مجالس، نیکو کاروں کے لئے حج و عمرہ کا بندوبست اور عیاش طبع صاحبان اختیار کے لئے عشرت کدوں تک خلوت کے ساتھ رسائی دینے والے کو ہمارے معاشرے میں چور یا ڈاکو نہیں بلکہ بطور تاجر، کاروباری، سرمایہ کار مخیر و سخی سمجھا جاتا ہے۔

اچھے برے، نیک و بد، نیکی و ثواب کا فیصلہ جب معاشرہ اپنی ضرورت کے مطابق کرے تو معیار بدل جاتا ہے۔ اپنی دفاع میں کیا ایک قتل جرم اور جنگ کے نام پر قتل عام کارنامہ بن جاتا ہے۔ سالن میں پانی کی مقدار بڑھانا ملاؤٹ اور انسانی ضرورت کی ادویات کو بازار سے غائب کردینا کاروبار کہلاتا ہے۔ فٹ پاتھ پر کسی بے گھر شخص کا سو جانا تجاؤز اور بستیوں کو مسمار کرکے امراء کے لئے گھر تعمیر کرنا ترقی سمجھی جاتی ہے۔ مساجد اور معبدوں کی وسعت اور میناروں کی اونچائی سے بنانے والے کے درجات ماپے جاتے ہیں مگر جس زمین پر اس کی تعمیر ہوتی ہے اس کی ملکیت اور تصرف پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔

ایک دفعہ مجھے سندھ کے ضلع مٹیاری میں کھبرانی کے جنگل میں بدنام زمانہ ڈاکو پارو چانڈیو کی کمین گاہ دیکھنے کا موقع ملا۔ پارو چانڈیو کا یہ اعزاز بھی ہے کہ اس کو موضوع بنا کر سندھی زبان کی پہلی فلم بنائی گئی۔  مرنے کے بعد بھی مگر ارد گرد کے علاقوں میں دہشت اور مقامی لوگوں میں پارو چانڈیو کے لئے احترام اور عزت محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ کیا پارو ڈاکو تھا لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کو اس بات سے غرض نہیں کہ وہ کون تھا مگر عام لوگوں کی مدد ضرور کرتا تھا۔

اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رابن ہڈ ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ ایسے ہی امیر لوگوں نے خیراتی ادارے کھول دیے اور مخیر کہلائے۔ ضرورت مندوں کے لئے کپڑا، کھانے پینے کی اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے علاوہ عامتہ الناس کے لئے پانی کی سبیلیں، کنویں، مساجد، خانقاہیں، درگاہیں تعمیر اور ان کی تزئین و آرائش ریاست کے بجائے مخیر لوگوں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور اس کے بدلے ریاست نے مخیر لوگوں کی کاروباری اور سیاسی من مانیوں سے بھی صرف نظر کیے رکھا ہے۔

وقت کے ساتھ جہاں کاروبار و تجارت صدیق سنز سے صدیق اینڈ کو بن گیا تو خیرات کا طریقہ کار بھی انفرادی سے ادارہ جاتی ہوگیا۔ کسی نے اپنے نام سے تو کسی نے ماں باپ کے نام سے خیراتی ادارہ قائم کھول دیا۔ انفرادی اور خاندانی کاروباری ادارے جب قومی (نیشنل) اور کثیرالاقومی (ملٹی نیشنل) بن گئے تو خیراتی ادارے بھی غیر سرکاری ادارے یا این جی اوز کہلائے جن کی ہیئت بھی قومی اور بین الاقوامی ہوگئی۔

این جی اوز کی کارکردگی پر عمومی رائے دینا نا انصافی ہوگی مگر خیرات کی تقسیم کے مقصد کے لئے کام کرنے والے اداروں کا اب بھی مطمح نظر ثواب، نیکی اور نیک نامی ہی نظر آتے ہیں۔ رمضان میں لمبی لمبی قطاریں بنوا کر راشن تقسیم کرنے کی تصاویر کی تشہیر یا کسی آفت زدہ علاقے میں گھی کے ڈبے اورآٹے کے تھیلے تقسیم کی ویڈیو فوٹیج ایسے اداروں کے مقصد کی غمازی ہے۔ پچھلے رمضان میں ضلع ہزارہ سے گزرتے ہوئے لوگوں کی لمبی لمی قطاریں دیکھ کر معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ایک صاحب جو ایک کاروباری شخصیت ہیں اور بڑے عرصے سے سینیٹر منتخب ہوتے آرہے ہیں وہ خیرات کی تقسیم کے لئے تشریف لانے والے ہیں۔ لوگوں نے کبھی ایوان بالا کے رکن کی حیثیت سے ان کی کارکردگی پر سوال نہیں اٹھایا اور نہ ان کی آمدنی کے ذرائع اور کاروبار پر کیونکہ اس خیراتی کام کی وجہ سے وہ معاشرے میں ایک مخیر اور غریبوں کی مدد کرنے والے کے طور پر مقبول ہیں۔

تجارت اور کاروبار کی عمالگیریت کے نظام میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بڑے کاروباری ادارے کسی بھی ریاست کے دیے ضابطے کے تحت کام کرتے ہیں جو اپنے عوام کے مفادات کا نگہبان ہوتی ہے۔ پانی، دودھ، تیل، بجلی، گیس، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی بڑے کاروباری اداروں کے ذریعے ہوتی ہے جس کی وجہ سے ریاست کا کردار اب صرف کاروبار میں شفافیت کو یقینی بنانے اور شہریوں کو معیاری ضروریات زندگی کی قابل دسترس قیمتوں میں فراہمی تک محدود ہوگیا ہے۔

کاروباری ادارے سرکاری واجبات اور قابل ادا ٹیکس کی وصولیوں کے بعد مفاد عامہ کے لئے خیراتی کام کاروبار کی سماجی ذمہ داری عرف عام میں کارپوریٹ سوشل رسپانس ایبلیٹی کے تحت بھی کرتے ہیں، ایسے خیراتی کاموں کا مقصد عوام کو بہتر سہولیات دینے کے لئے ریاست کا ہاتھ بٹانے کے علاوہ کاروباری ادارے کی عوام میں نیک نامی اور مقبولیت بھی ہوتا ہے۔ کاروباری ادارے اشیائے ضروریہ کی قیمت اور معیار میں من مانی کو اپنے خیراتی کاموں سے جواز فراہم کریں تو رابن ہڈازم کاروباری سطح پر بھی بہ آسانی محسوس کی جاتی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تاجر یا کاروباری فرد واحد ہو، ایک کمپنی ہو یا کثیر القومی ادارہ وہ اپنی منفعت کے مواقع تلاش کرتا ہے مگر ریاست نے ہمیشہ عامتہ الناس یا شہریوں کے مفادات کے تحفظ کو مقدم رکھا ہے جس کو قومی مفاد کہا جاتا ہے۔ قومی ریاست کے ایک جغرافیائی سرحد کے اندر رہنے والوں کا باہرکے خطرات سے تحفظ کے ساتھ ہی سماجی بہبود کی ریاست یا سوشل ویلفئیر اسٹیٹ میں شہریوں کو جغرافیائی وحدت کے اندر بھی طاقتوروں اور زور آوروں کے استحصال سے بھی محفوظ رکھنا مقصود ہے۔

رسل و رسائل کی ترقی کے ساتھ کاروبار کی وسعت کے عالمگیر مواقع پیدا ہوئے تو ایک سے دوسرے ملک میں سرمایہ کا ارتکاز بھی آسان ہوگیا۔ وقت کے ساتھ بین الاقوامی کاروبار کی ایک اخلاقیات بھی نمو دار ہوئی ہے جس کا مقصد غیر قانونی طور پر اکٹھا کیا گیا سرمایہ اور دولت کی منتقلی اور اس کے غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال کو روکنا ہے۔ سرمایہ کے ارتکاز کی اس اخلاقیات کو بعض ممالک نے قانون کی شکل دے کر اس پر عمل درآمد شروع کیا ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں ملک ریاض حسین کی دولت میں بے پناہ اضافہ اور اس کا عدلیہ، انتظامیہ اور سیاسی حلقوں میں اثر رسوخ زبان زد عام ہے۔ کاروبار کو بڑھانے کے لئے رشوت دینے کے اس کے بر ملا اظہاراور اور زمینوں پر قبضے کے لئے استعمال کیے جائزو ناجائز ذرائع کے ساتھ ہی دنیا کی سب سے بڑی مسجد بنانے، مساکین کے لئے دسترخوان کا انتطام کرنے اور بیماروں کا علاج کرانے جیسے اقدامات سے ان کی شہرت بھی ایک مخیر اور ہمدرد شخص کی ہے۔

برطانیہ میں ایسے ہی ایک قانون کے تحت ملک ریاض حسین کی ایسی دولت کا پتہ لگایا گیا جس کے جائز ذرائع نہیں بتائے گئے۔ اس قانون کے تحت ملک ریاض کے پاس دو راستے تھے ایک تو وہ برطانیہ کے قانون کے مطابق منظر عام پر آئی غیر قانونی جایئداد کی بحق سرکار برطانیہ ضبطی اور خود جیل میں سزا کاٹے۔ اس کے پاس دوسرا راستہ اس جایئداد کو پاکستان واپس لا کر یہاں کے قانون کے مطابق کارروائی کے لئے پیش ہو نے کا تھا۔ ملک ریاض نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا تو حکومت پاکستان نے ضبط کی گئی جائیداد کی برطانیہ سے واپسی پر بغیر کسی سوال و جواب کے ان کو لوٹا دی۔ امید ہے اب ملک ریاض مستقبل میں نیکی اور بھلائی کے ذریعے مزید نیک نامی اور شہرت حاصل کرکے اپنے اندر رابن ہڈ کی روح کو زندہ رکھے گا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan