طلبہ یونین کی بحالی – سو رنگ کے پھول کھلنے کی نوید


لوگ جو بھی کہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بہار دو بار آتی۔ ایک اس وقت جب انتخابات ہوا کرتے اور دوسرے نئے تعلیمی سال آغاز پر داخلوں کے موقع پر۔ ان دونوں مواقع کی یادیں دلوں میں تتلیاں بن کر اڑتی ہیں۔ داخلوں کے موقع پر نئے طلبہ اپنی تعلیمی پیش رفت میں سرشاری، میرٹ کے باعث داخلہ ملنے یا نہ ملنے کی فکر مندی کے باوجود اور اپنی خوبصورتی اور وجاہت کے اظہار کے لیے بہترین جامہ زیبی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، خاص طور پر طالبات۔ ایسے مواقع پر نئے طلبہ کی ذہانت یا بدحواسی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے جن سے لطف اٹھانے کے لیے سینئر طلبہ ان مقامات پر ہجوم کیا کرتے جہاں نئے طلبہ جمع ہوتے۔ ایک لطیفہ یاد آتا ہے، ایک طالبہ نے معذور طلبہ کے لیے مخصوص نشستوں پر داخلے کے لیے درخواست جمع کرائی تو کسی شریر سینئر طالب علم نے پوچھا، بی بی! آپ کی معذوری کیا ہے؟ اس نے ترنت جواب دیا، میرے بال گرتے ہیں۔ خیر، یہ تذکرہ چلا تو طویل ہوتا چلا جائے گا، اس وقت طلبہ یونین کے انتخاب کی بات کرنی ہے جس کی اجازت دے کر سندھ حکومت نے تاریخ رقم کردی ہے۔

طلبہ یونین کے انتخاب کے موقع پر داخلوں سے بھی بڑھ کر گہما گہمی ہوا کرتی۔ ہمارے ایک استاد پروفیسر ریاض احمد شاد (اللہ ان کی قبرکو نور سے بھر دے) اپنی ہر دل عزیزی کے باوصف امور طلبہ کے مشیر اور علم و ادب سے وابستگی کے باعث نیوز لیٹر کے مدیر ہوا کرتے تھے۔ نیوز لیٹر کا جب انتخاب ایڈیشن شائع ہوتا تو اس کی سرخیوں اور تصاویر کے کیپشنوں میں ہلا گلا، جشن اور رونقیں جیسے الفاظ کی بھرمار ہوتی۔ سچ یہ ہے کہ وہ جو کچھ لکھا کرتے، عین وہی کچھ تعلیمی ادارے کی چار دیواری، راہداریوں اور باغیچوں میں دیکھنے کو ملتا۔ نئے نئے نعرے تخلیق ہوتے، نعروں کی طرزیں بنتیں، پوسٹروں کے ڈیزائن اور مندرجات میں جدت پیدا کی جاتی اور سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کام طلبہ اپنے ہاتھ سے کیا کرتے۔ یوں نشر و اشاعت، لکھنا لکھانا اور صحافیوں سے ربط ضبط کا سلیقہ ان میں پیدا ہوجاتا۔ انتخابی سرگرمیوں کا یہ ایک پہلو ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت بھی ہوتا لیکن عملی زندگی میں تو یہ مہارت سچی بات یہ ہے کہ اثاثہ بن جاتی۔

اس سرگرمی کا دوسرا اور بہت اہم پہلو انتخابی مہم ہوا کرتی جسے کنویسنگ(canvassing)  یعنی کلام کہا جاتا۔ یہ پہلو اس اعتبار سے زیادہ اہم اس لیے تھا کہ یہی وہ اہم سرگرمی ہوتی جس کے ذریعے طلبہ میں بات کرنے، موثر طریقے سے اپنا موقف پیش کرنے اور دوسروں کو قائل کرنے کی مشق ہوتی۔ آج بھی یاد کرکے لطف آتا ہے کہ دوست احباب اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے خوب محنت کیا کرتے اور ایسے ایسے نکتے نکال کر لایا کرتے کہ طبیعت نہال ہوجاتی۔ کنویسنگ کا ذکر چھڑا ہے تو دل میں دو دوستوں کی مہکتی ہوئی یاد کی خوشبو پھیل گئی۔ ہمارے زمانے کے ایک لیڈر میں اشتیاق احمد گوندل ہوا کرتے تھے خیر سے اب پروفیسر ہی نہیں ڈاکٹر بھی ہیں اور دیس پردیس علم کے موتی رولتے ہیں۔ اشتیاق بلا کے مقرر تھے۔ ان کا خطاب سننے کے لیے ان کے ہم خیال ہی نہیں بلکہ مخالفین بھی جمع ہوجاتے تو ان کے نکالے ہوئے نکتوں کی دل کھول کر داد دیا کرتے۔

دوسرے دوست جلیل طارق تھے۔ جلیل طارق لڑکپن میں بھی اپنی عبادت گزاری، شرافت اور نفاست کے لیے معروف تھے۔ ممکن ہے کہ اپنی ان ہی خوبیوں کی وجہ سے کچھ شرمیلے رہ گئے ہوں اور تقریر ان کی پہلی سرگرمی نہ بن پائی ہو۔ یہ پہلو اپنی جگہ لیکن دوستوں کے حلقے نے انھیں اپنا امیدوار بنا لیا تو بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا لیکن پریشانی کی بات یہ کی تھی کہ جلیل طارق اگر تقریر نہ کر پائے تو کیا بنے گا، یہی خوف تھا جس کی وجہ سے ان کے ہر دوست نے ان پر مشوروں کی چادر تان دی اور وہ اس کے نیچے دب کر رہ گئے اور شاید اسی لیے غائب بھی ہوگئے۔ رات بھر ان کی تلاش جاری رہی، صبح البتہ وہ خود منظر پر آگئے اور انھوں نے پہلی اپنی تقریر ہی اس شان سے کی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ان سے پوچھا گیا کہ یار کہاں غائب ہوگئے تھے تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کی عزت رکھنے۔ گھر جاکر تنہائی میں بیٹھا اور سوچا کہ مرد میدان بننا ہے یا راہ فرار اختیار کرنی ہے۔ غیرت نے دوسرا راستہ بند کردیا، اب میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں اور تم میری تقریر کی داد بھی دے رہے ہو۔

طلبہ یونین کا اس سے بھی بڑا فائدہ یہ تھا کہ ووٹ دینے والے طلبہ میں قیادت کے انتخاب کا شعور پیدا ہوتا اور ان کی منتخب قیادت میں وقت فیصلہ۔ آج وقت کے اعتبار سے دہائیوں کے فاصلے پر کھڑے ہوکر محسوس ہوتا ہے کہ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کے ساتھ جن معاملات پر اختلافات اور مذاکرات ہوتے، وہ کوئی اتنے اہم مسائل تو ہرگز نہیں ہوا کرتے تھے لیکن اپنے وقت کی مخصوص صورت حال میں اتنے کم اہم بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ ان معاملات کو اپنی آسانی کے لیے اپنے انتظامی نکتہ نظر سے دیکھا کرتی یا اس کے پیش نظر یہ خیال ہوتا کہ اگر ایک بار کوئی معمولی سی ”بدعت“ بھی پڑ گئی تو وہ کہیں آگے چل کر بڑی مصیبت میں تبدیل نہ ہوجائے۔ بس، یہی چھوٹے چھوٹے جھگڑے نوجوانوں میں معاملہ فہمی کی اہلیت پیدا کرتے، وقت پر بات کرنے اور اپنا موقف پیش کرنے کا سلیقہ سکھاتے، یہ سب چیزیں مل ملا کر عملی زندگی کا اثاثہ بن جاتیں۔

اب اس معاملے کی آخری، سب سے اہم اور نازک بات۔ ان سطور کے لکھنے والے میں اس انکار کی ہمت تو بالکل نہیں کہ طلبہ یونین کے انتخابات اور اس سرگرمی کے مختلف مراحل پر اختلافات کی ایسی نوعیت پیدا نہیں ہوتی تھی جو بعد میں کسی خونریز فساد میں نہ بدلے۔ ایسا ہوا اور بہت ہوا جس میں خود ہمارے ساتھی اور دوست بھی متاثر ہوئے لیکن اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ خونریزی جس سے اتنا ڈرایا جارہا ہے، اتنا بڑا مسئلہ نہیں جس پر قابو پانا ممکن نہیں۔ مجھے ایک زمانے میں کسی مغربی یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے والے نوجوان سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا تھا۔ میں نے اس سے اسی بارے میں سوال کیا تو اس نے بتایا کہ کیمپس فورس ایسے مسائل سے نمٹنا خوب جانتی ہے۔

مغربی تعلیمی اداروں میں یہ فورس اتنی موثر ہوتی ہے کہ اگر کچھ لوگوں کے درمیان کوئی تنازع پیدا ہوجاتا ہے اور ہاتھا پائی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے تو ہر فریق کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا مخالف ہی ہاتھ اٹھائے اور پہل کرے۔ ممکن ہے کہ یہ تجربہ پاکستان کے حالات سے مختلف ہو لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ بے لچک نظم و ضبط اور مناسب قوانین کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے اگر دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے تو اس کے مقابلے میں یہ مسئلہ تو بہت معمولی ہے، پس، طلبہ یونین کی بحالی کے خلاف تشدد اور خونریزی کا بہانہ ایک کمزور دلیل ہے، لہٰذا سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی کا کھلے دل کے ساتھ خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی سندھ حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اس اچھے قدم کو تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کی مزید بہتری کا ذریعہ بنا دے تاکہ اس کا یہ فیصلہ سب کے لیے قابل قبول بن جائے۔

بشکریہ ہم نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).