توہین اور اس کی اقسام


وطنِ عزیز کے سماجی، مذہبی اور سیاسی تمدن میں ”توہین“ کی اصطلاح توہین کی حد تک بدنام ہے۔ ہر شخص اور ہر ادارے کی بات بات پہ توہین ہوجانا معمول کی بات ہے۔ عزتِ نفس اوجِ ثریا پہ براجمان ہے اور ہر قدم پہ توہین کا احتمال ہے۔ چلئے کچھ ”کی“ جانے والی تواہین کی چیدہ چیدہ اقسام کا جانبدارانہ جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ توہینِ عدالت۔ یہ توہین کی سب سے بڑی اور معتبر قسم ہے جو تھوک کے حساب سے دستیاب ہے۔ بخوفِ توہین عدالت قوتِ گویائی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ قلم، ہتھوڑے اور ترازو کی مثلث بڑوں بڑوں کے اوسان خطا کردیتی ہے۔ بصورت ِ نفاذِ توہین، معافی نامے کے سوا نجات کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ صنف کے لحاظ سے عدالت چونکہ مو نث ہے لہٰذا عظمیٰ، عالیہ اور دیوانی کی شان میں گستاخی کاملاً معیوب ہے۔ عدالت کے کسی فیصلے پہ چوں چراں ”توہین ِ صغریٰ“ جبکہ فیصلہ دہندگان کے حضور گستاخی ”توہینِ کبریٰ“ کے زمرے میں آتی ہیں۔ اک انتہائی گستا خ شاعر کا ایک شعر بغیر کسی معذرت کے عرض ہے،

ہے فیصلہ خود باعث ِ توہینِ عدالت۔ کچھ کہہ کے میں توہینِ عدالت نہیں کرتا

یہ کہنا کہ اب وکیل کی بجائے جج کرنا بہتر ہے، یا کسی جج کو بادہ کش او ر رقاص کہنا، یا یہ بولنا کہ جج دباؤ میں آجاتے ہیں اور منشائے بالا کے پیرو ہیں۔ ان سب پہ توہینِ عدالت کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

توہین ِ علالت۔ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ بیمار کی بیمار پرسی کرکے تسلی دی جائے۔ بھلے دل پہلے ہی بڑھا ہو پھر بھی، مزید بڑھایا جائے۔ خاص کر علیل قیادت کی عیادت، عبادت سے کم نہیں۔ مانا کہ تندرستی ہزار نعمت ہے مگر الزام زدگان کے ہاں کاملاً تندرستی بھی سود مند نہیں ہوتی۔ ان حالات میں کچھ عوارض اور علالتیں باعث ِ نجات ثابت ہوتی ہیں۔ گویا تندرستی اگر ہزار نعمت ہے تو بیماری کروڑ نعمت بن سکتی ہے اور زنداں کی دیواریں ”در“ بننے لگتی ہیں۔

اربابِ سیاست کو بے شمار جان لیوا اور ایمان لیوا بیماریاں لاحق رہتی ہیں جن میں اقتدار کی رے بیز، کرپشن کا سرطان، اہلیت کا فالج، وعدہ خلافی کا ڈیمینشیا، بد اخلاقی کا جذام اوررشوت کی ذیا بیطس شامل ہیں۔ کچھ امراض ِ شکم تو کچھ دماغی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ کسی میں خون کی کمی اورکسی میں برداشت اورعقل کی کمی ہوجاتی ہے او ر کوئی پلیٹوں کی کمی کے مرض میں گھِرسکتا ہے۔ سب بجا سہی لیکن بیماروں کی بیماریوں کا مذاق اڑانا صحت مند رجحان نہیں ہے۔ علالت زندگی کا جزوِ لاینفک ہے جبکہ ہر ذی اقتدار نے سابق ہونے پہ مقدمات کا ذائقہ چکھنا ہے لہٰذا کسی علیل خاتون، کسی علیل سابق وزیراعظم، صدر یا جرنیل کی علالت کی توہین ہرگز نا کی جائے وگرنہ علالت سے کسی کو بھی رُستگاری نہیں ہے۔

توہینِ صحافت۔ چونکہ صحافیوں نے خود کو بزورِ تشہیر وتقریر معزز، پَوِ تر اور دانشور منوالیا ہے لہٰذا ان کی شان میں گستاخی ”توہینِ صحافت“ سمجھی جاتی ہے۔ اینکرز، پَتر کار اور خاص کر نامہ نگار منہ پھٹ کے ساتھ قلم پھٹ بھی ہوتے ہیں اور ان دانشوروں کا دانش سے اِٹ کتے کا ویر بھی ہوتا ہے مگر ان کو اتائی کہہ کر تنقید آزاد صحافت پہ حملہ تصور ہوتا ہے۔ ایسے بہت سے دانش وڑ ہر سرکار کے ساتھ ہوتے ہیں اور اپنے گھر، چینل اور الو سیدھا کرنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ گویا ہر دور میں درباری صحافیوں کا وجود برحق ہے اور کسی کو ان کے اس حق پہ لب کشائی کا حق نہیں ہے۔ یہ کہہ کے صحافت کی توہین مناسب نہیں کہ صحافی کے وہ الفاظ جو کسی کی تعریف یا تذلیل میں استعمال ہوں کافی ”قیمتی“ ہوتے ہیں۔

توہینِ وکالت۔ کالے کوٹ کی تقدیس بزورِ شمشیر مسلم ہے۔ اپنے حقوق کی جنگ کے لئے سماج کے ہر طبقے سے دست و گریباں ہیں۔ دن کو رات، رات کو دن ثابت کرنا ہو یا جھوٹ اور سچ کی آنکھ مچولی کروانی ہو، یا پھر کسی کو سینگوں پر اٹھوانا ہو، کالے کوٹ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ وکیلوں کی دشمنی مول لینا صحت کے لئے مضر ہے۔ اک گستاخ کا کہنا ہے کہ یہ قانون کو ہاتھ میں لینے کے لئے قانون پڑھتے ہیں۔ اک اور شاتم نے تو یہ شعرلکھ کر حد ہی کردی

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا۔ لو آج ہم بھی صاحب ِ اولاد ہوگئے۔ (نقل کفر کفر نہ باشد )

پھر حال ہی میں چٹے کوٹ کی کالے کوٹ کی شان میں گستاخی ایک انقلابی المیہ ہے جو ناقابِل برداشت ہے۔ حکایت ہے کہ جس قوم نے کالے کوٹ کی توہین کی اس قوم کے سائلین کوکچہریوں میں خوار ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ نیاز فتح پوری کی رائے میں اگر کچھ اضافے کی اجازت ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ سیاست نگر میں صحافیوں، مولویوں، وکیلوں اور سانپوں کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سانپوں کی بعض قسمیں زہریلی نہیں بھی ہوتیں۔

توہینِ وزارت۔ وزارت عظمیٰ، وزارت داخلہ و خارجہ، وزارت اعلیٰ، وزارت اطلاع اور وزارت مذ ہبی امور وغیرہ کے بارے میں نازیبا بیانات توہینِ وزارت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اب ایک عظمیٰ کا دوسری عظمیٰ کے باجوے، سوری باجرے کی راکھی نا بیٹھ پانا بھی دل میں سمجھی جانے والی توہینِ وزارت ِ عظمیٰ ہے۔ حالانکہ وزارت ِعظمیٰ پوری طرح کمر کس کر مزکورہ باجرے کی راکھی کے لئے ”قمر بستہ“ تھی۔

توہینِ جلالت۔ نظام میں موجود برگزیدہ ہستیوں اور جلیل القدر اداروں کے خلاف منفی سر گر میاں اورگفتگو ”توہینِ جلالت“ میں شمار ہیں۔ ان کی پاکئی داماں کی حکایات پہ سر نہ دھننا بھی معیوب قرار پاتا ہے۔ توہینِ جلالت کے مرتکبین ڈنڈے اور بوٹوں سے سدھار لئے جاتے ہیں جبکہ نا سدھرنے والوں کا شمار لاپتہ افراد کی فہرست میں سر ِ فہرست آ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).