راولپنڈی میں کرکٹ کی کچھ یادیں کچھ باتیں


گیارہ دسمبر کا دن جب سری لنکا کے بہادر کھلاڑی ایک دفعہ پھر ہمارے کرکٹ کے سونے میدانوں کو آباد کر رہے ہیں اور پنڈی کی سر زمین کو پندرہ سالوں بعد کسی ٹیسٹ میچ کی میزبانی کا شرف حاصل ہو رہا ہے تو یوں یہاں کے ترسے باسی آخر کار اپنے سامنے اپنے کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھ سکیں گے۔ پنڈی نے کراچی اور لاہور کے مقابلے میں ایک چھوٹا شہر ہونے کے باوجود ہمیشہ کھیلوں کی آبیاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنا نام کمایا لیکن ان گزرے سالوں میں ہماری ایک نسل پل کر جوان ہو چکی جس نے اپنے سامنے اپنے کھلاڑیوں کو کبھی کھیلتے نہیں دیکھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری کرکٹ بھی اب روبہ زوال ہے۔

ویسے تو ہماری سیاہ بختی نائن الیون کے بعد شروع ہو گئی تھی اور غیر ملکی ٹیمیں محتاط ہوتی جا رہی تھی۔ کراچی میں ہوئے ایک دھماکے کے بعد گوروں نے یہاں آنے سے توبہ کر لی تھی۔ آئے روز دھماکوں کے باعث پاکستان کھیلوں کے حوالے سے ایک انتہائی غیر محفوظ ملک تصور کیا جانے لگا تھاتو ایسے حالات میں ہمارے سری لنکن دوستوں نے ہماری مدد کرنے کی ٹھانی اور دو ہزار نو میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم یہاں ٹیسٹ کھیل رہی تھی جب لاہور میں ہوئے دہشت گردی کے اُس واقعے کے بعد ہمارے کھیلوں کے میدان ہمیشہ کے لیے سونے ہو گئے۔ آج جب وہی سری لنکا ایک مرتبہ پھر ہمارے سونے میدانوں کو آباد کرنے ہماری مدد کو آ رہا ہے اور میرے شہر میں ایک زمانے بعد کر کٹ کی بہار لوٹ رہی ہے تو یادوں کی پٹاری سے کچھ یادیں سر نکالے کھڑی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں ہمارا تعلق اُس خوش قسمت نسل سے ہے جس نے نوے کی پوری دہائی میں اپنے شہروں میں اپنے کھلاڑیوں کو اپنے سامنے جی بھر کر کھیلتے دیکھا۔ غالباً 1993 کا ذکر ہے جب راقم میٹرک میں تھا تو سکول سے پہلی دفعہ چند ہم جماعتوں کے ساتھ بنک کیا یا پُھٹا لگایا اور راولپنڈی کے کرکٹ سٹیڈیم جا پہنچے جہاں ڈومیسٹک کرکٹ کے مقابلے ہو رہے تھے کچھ دیر سٹیڈیم کی کرسیوں پر بیٹھ کر میچ دیکھا اور پھر ہم ڈریسنگ روم کی طرف گئے۔

بلا کسی روک ٹوک ہم ڈریسنگ روم کے دروازے ہر پہنچے جہاں سلیم ملک کھڑے تھے بڑے پیار سے ہم سب سے ہاتھ ملایا اور میرے ایک دوست کے کاندھے پر ہاتھ مار کر ٹھیٹھ پنجابی میں کہنے لگے کیوں بچو سکول سے بھاگ کر آگئے ہو اور اس بات پر اندر بیٹھے اعجاز احمد نے زور سے قہقہہ لگایا تھا۔ وہاں سے مڑنے لگے تو آصف مجتبیٰ آتے نظر آئے جنھوں نے ہمیں کوئی رسپانس نہیں دیا کیونکہ وہ آؤٹ ہو کر لوٹے تھے اور ظاہر ہے خوش نہیں تھے۔

تو یہ ہمارا پنڈی کرکٹ سٹیڈیم سے پہلا باضابطہ تعارف تھا۔ ایک مرتبہ آسٹریلیا کی ٹیم جب پنڈی آئی تو یہاں کے کے آر ایل سٹیڈیم میں سائیڈ میچ کھیلنے سے پہلے سٹیو وا نے فٹبال ہم تماشائیوں کی طرف اچھال دی تھی جس کو میرے ایک دوست نے کیچ کیا اور پھر وہ ہمیشہ اس کے شو کیس میں سجی رہی۔ اور پھر چھیانوے کے ورلڈ کپ میں اصغر مال کالج سے پُھٹا لگایا اور گیری کرسٹن کی یو اے ای کے خلاف کھیلی یادگار اننگز دیکھی۔ یا پھر پنڈی کا اے ڈی اے گراؤنڈ جو چکلالہ ایئر بیس بننے سے پہلے ائیر فورس کا رن وے ہوتا تھا اور جہاں شاید ہی پنڈی کا انٹرنیشنل لیول تک پہنچنے والا کوہی کھلاڑی نہ کھیلا ہو۔

وہاں پنڈی کے مختلف کلبوں نے اپنی اپنی وکٹیں بنائی ہوتی تھی اور اُن وکٹوں پر کبھی شعیب اختر کو کھیلتے دیکھا اور کبھی محمد وسیم کو۔ اور پھر وہ دن بھی دیکھا جب اس میدان پر ائیر فورس نے اپنی کالونی بنا دی اور یوں پنڈی کی کرکٹ کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اب اس موقع پر میری دلی خواہش ہے کہ میرے شہر کے لوگ کھیلوں کے ساتھ اپنی پرانی وابستگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جوق در جوق یہ میچ دیکھنے آئیں تا کہ یہ لمحات پنڈی کی تاریخ میں محفوظ ہو جائیں۔

کھیلوں کے میدان کسی بھی معاشرے کے نوجوانوں کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں جہاں نوجوان نا صرف اپنی توانائیاں مثبت طریقے سے صرف کرتے ہیں بلکہ ایک صحت مند معاشرے کو وجود میں لانے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ راقم نے اپنے انگلستان کے قیام کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ وہاں کے سخت موسم میں بھی ان کے کھیلوں کے میدان ہر وقت آباد رہتے ہیں۔ آج جب ہمارے ملک میں وزیراعظم کی مسند پر کرکٹ کی ایک بڑی شخصیت براجمان ہیں تو شاید ان سے یہ امید لگانے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ ہمارے ملک کے کھیلوں کے میدانوں کی حالتِ زار کی طرف بھی کچھ نظرِ التفات رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).