ان کی ڈگریاں کینسل کریں


ان کی ڈگریاں کینسل کریں اور مریضوں کی جان لینے والوں کو سزائے موت دیں! پاکستانی قوم کے پاس ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی پہلے ہی شدید کمی ہے، یہاں مسیحاؤں کی کمی ہے، غنڈوں اور بدمعاشوں سے تو یہ زمین بھری پڑی ہے۔ اور اس قوم کی بدقسمتی میں، ان کے خوف میں، عدم تحفظ میں مزید اضافہ کرنے والوں کو سزائیں دیں! وزیر اعظم کی کرسی جو قانون کے مطابق سب سے اونچی ہے، آرمی چیف جن کو دنیا کہتی ہے کہ ان کے ہاتھ میں سب سے بڑی چھڑی ہے، چیف جسٹس جن کے عدل کے نقارے میڈیا میں بجتے رہتے ہیں کیا کسی میں اتنا دم ہے کہ آج مجرموں کو ہتھکڑیاں لگائیں اور ان کو سزائیں دیں؟ چلیں دیکھتے ہیں آج زور کس کے بازو میں ہے۔

وہ زمانے پرانے ہوئے جب اک ذرا سی بات پر قتل ہوتے تھے اور نسل در نسل دشمنیاں چلتی تھیں آج ڈیجیٹل موسم ہیں اب وائرل مووی کو دیکھ کر ہسپتالوں پر بڑے اداروں کے ہزاروں جتھہ بردار حملہ کر دیتے ہیں۔ ہسپتال کیا ڈاکٹروں کی ذاتی جاگیر ہیں؟ جس کو مارنا ہے جاؤ اس کے گھر جا کر مارو، ہسپتال پر حملہ کر کے پاکستان کی جاگیر میں بربادی پھیلانے والوں کا گریبان پکڑنے والا آج کوئی ہے؟

کیا ان نام نہاد تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے ہسپتال، مریض، انسانی زندگی ایک شغل ہیں جو کوئی وڈیو دیکھ کر یہ جب چاہیں جیسے چاہیں جا کر کسی ادارے پر نہتے لوگوں پر حملہ کر دیں؟ جس ملک میں ایک ایک بستر پر چار چار مریض پڑے ہیں اس کا ایک پورا ہسپتال توڑ دیا اور ابھی تک 40 گرفتاریوں کی اطلاع مگر کسی گرتار ہونے والے کا نام نہیں آیا۔ کسی غیرت مند نے استعفی نہیں دیا۔ پاکستان میں زندگیاں، ادارے، انساں، محض زور آوری کا کھیل ہیں اور بس!

مجھے شکایت ان ڈاکٹروں سے بھی ہے جنہوں نے پہلے طاقت سے ڈر کر معافی مانگی۔ اگر غلطی سے قانوں کی خاطر کھڑے ہو گئے تو پھر شرمندگی کیوں؟ معافی کس بات کی؟ معافی تو لائن توڑ کر غنڈہ گردی کرنے والوں کو مانگنی چاہیے تھی۔ یہ اور بات کہ یہ کردار تو بہت اعلی اقوام کے ہیں آج کے واقعہ سے تو احساس ہوا یہ قوم نہیں بس جانوروں کے کچھ گروہ ہیں جہاں پر کچھ درندوں کا راج ہے۔ یہاں اخلاق، کردار اور تعلیم کا نام لینا خود ان کو گالی دینے کے مترادف ہے۔

شرم ہے کہ کم نہیں ہوتی کہ انڈیین سینما دیکھنے والے انڈین انداز کی للکاریں بھرتے اپنے ملک کے نہتے لوگوں پر حملہ کرنے ڈنکے کی چوٹ پر چلے جا رہے درندوں کا سمندر دیکھا! ان کے نام کے ساتھ ڈگری کا لگنا شرمناک ہے ایسے بے شعور تو ان پڑھ پرانے لوگ بھی نہیں تھے جو دوسروں کے مذاق کو نظر انداز کرنے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔ ان کے ماتھوں پر جہلا اور درندے لکھیں۔ جب اخلاق، شعور اور تعلیم اس لیول تک گرچکا ہو تو یہ لوگ انسانوں میں چھوڑنے کے قابل نہیں ہیں۔ جب ہزاروں لوگوں کا شعور اس قدر معزور اور پست ہو کہ وہ محض ایک وڈیو کی بنا پر انسانیت پر حملہ کر دیں۔ سوچ کی حد ہے کہ ان کے شعور کی حد تک گر نہیں پاتی!

قیامت کب آئے گی؟ جب قانوں فطرت اپنا ڈسپلن کھو دے گا۔ پاکستان میں روز قیامت کیوں برپا ہوتی ہے کیونکہ یہاں قانوں کے نام پر محض نمائیشی بینر ہے اس لئے روزانہ کبھی چھوٹے سے چھوٹے لیول پر اور کبھی بڑے لیول پر طاقتور کے ہاتھوں کمزور پر قیامت آتی ہے۔ خدا جانے کہ یہ انصاف اور قانون کا نظام کبھی اس دھرتی پر اتر سکے گا کہ نہیں مگر کم سے کم آج کے مجرموں کو ہتھکڑیاں ضرور لگنی چاہیں۔ چاہے وہ طاقتور اداروں میں سے کسی بھی جانب سے لگائی جائیں۔

کم سے کم ہسپتال کی تباہی کا مقدمہ پاکستانی عوام کی طرف سے ان وکلا کے خلاف درج ہونا چاہیے اور ان کو نوکریوں کے لیے نا اہل کیا جائے، مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے پر مریضوں کی طرف سے مقدمات درج کیے جائیں اور سزائیں دی جائیں، اور اس حملے کو سرکاری وردی میں ہونے کی وجہ سے نہ صرف ہسپتال کی مرمت کا سب خرچہ ان وکلا پر ڈالا جائے جو آج تک عوام کو انصاف تو نہ دلا سکے اب ان سے شفا کا اختیار بھی چھین لینا چاہتے ہیں بلکہ ان کے بجٹ سے جرمانے میں اس لیول کے دو مزید ہسپتال بھی بنوائے جائیں۔ پاکستانی قوم پر کیا گیا ظلم اتنی آسانی سے آپ کیسے معاف کر سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).