ہم سب ایک ہیں!


قومیں اپنی اخلاقی اقدار سے اور تعلیم و تربیت سے بنتی اور پہچانی جاتی ہیں اور جس قوم میں ان صلاحیات کی کمی ہو وہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا سماں بندھا رہتا ہے۔ بد قسمتی سے بحثیت قوم ہم میں اخلاقی اقدار کی کمی کی وجہ سے عدم برداشت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہم ہر وقت خود کو دوسرے سے بہتر اور زیادہ طاقت ور ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ شاید اسی لئے ہمارے مقاصد قومی نہیں بلکہ ذاتی بنیادوں پر قائم رہتے ہیں۔

پوری دنیا میں ڈاکٹرز اور وکلاء کو بہترین پیشوں میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی لگن اور مثالی خدمات لوگوں کو ان کی عزت کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اسی لئے ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ بڑا ہو کر ڈاکٹر یا وکیل بنے۔ تحریک آزادی کو کامیاب بنانے والے لیڈرز میں سے نوے فیصد وکلاء تھے اور انڈیا سے پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کے زخموں پر مرہم پٹی کرنے والے شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے ہمارے ہم وطن ہی تھے۔

ہمارے قائد خود وکیل تھے اور ان کی بہن ایک ڈاکٹر تھی۔ آج کے پاکستان کی حالت زار اور پڑھے لکھے طبقہ کا رویہ دیکھ کر تحریک آزادی کے کارکنان کی روحیں ضرور تڑپتی ہوں گی۔ آج اس ماں کی کیا حالت ہو گی جو خود دل کی مریضہ ہو وہ ہسپتالوں سے اپنا علاج کروا رہی ہو اور اس کا ایک بیٹا ڈاکٹر ہو اور دوسرا وکیل ہو۔ کیا وہ ان ہسپتالوں سے اپنا علاج کروانا چھوڑ سکتی ہے کیا وہ اپنے دونوں بیٹوں میں سے کسی ایک کو غلط کہہ سکتی ہے۔ ہم اپنے ایک بھائی کو نیچا ثابت کرنے کی بجائے معاف کر کے خود کو خدا کی بارگاہ میں اونچا کیوں نہیں کر لیتے۔

ہم میں سے ٹھیک کون ہے اور غلط کون ہے ہم کیسے فیصلہ کر سکتے ہیں کیونکہ ہم سب ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں اور ایک ہی معاشرہ میں رہ کر ہماری اخلاقی تربیت ہوئی ہے۔ ہم سب ایک ہیں۔

جب ہسپتالوں میں مریضوں کو قصاب خانے جیسے ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہاں ڈاکٹرز ہم ہیں۔ جب عدالتوں میں سائلوں، پولیس والوں اور ججز کو مارا جاتا ہے تو وکیل ہم ہیں۔ جب عدالتوں میں انصاف حاصل کرنے میں غریب عوام کی نسلیں بڑی ہو جاتی ہیں اور امیر کو رات و رات من پسند انصاف مل جاتا ہے تو وہاں ججز ہم ہیں۔ جب پیسے لے کر ملزم چھوڑ دیے جاتے ہیں، جھوٹے پرچوں میں لوگوں کو پھنسا دیا جاتا ہے اور معصوم لوگوں کو جعلی مقابلوں میں ختم کر دیا جاتا ہے تو وہاں پولیس ہم ہیں۔

جب سیالکوٹ میں بے قصور بھائیوں کو بیدردی سے، مردان میں مشال خان کو سفاقی سے اور کوٹ راداکشن میں شہزاد مسیح کو بے باکی سے مار دیا جاتا ہے تو وہاں بپھری ہوئی عوام ہم ہیں۔ جب سیاسی مقاصد کے لئے ملک و قوم سے غداری اور قومی خزانے سے چوری کی جاتی ہے تو وہاں سیاست دان ہم ہیں۔ جب مدارس میں فرقہ واریت کو پروان چڑھایا جاتا ہے، بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جاتی ہے اور مذہب کو پیسے کے لئے بیچا جاتا ہے تو وہاں مذہبی ٹھیکیدار ہم ہیں۔

ہم سب ایک ہی ہیں مگر ہمارے چہرے ہزار ہیں۔ جس کو بھی اس کا چہرہ دکھاؤ وہ آپ کو اپنا دشمن سمجھنے لگ پڑتا ہے۔ تنقید برائے اصلاح کی تو گنجائش ہی نہیں ہے۔ ایک لمحہ میں ماں بہن کو گالیاں اور جان و مال کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر ہمیں کچھ بدلنا ہے تو انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریباں میں جھانکنا ہو گا اور خود کو بدلنا ہو گا تاکہ معاشرہ میں اچھی مثالیں قائم ہوں۔ تعلیم سے زیادہ شعور اور اخلاقیات پر توجہ دینی پڑے گی۔ پھر جا کر ہجوم سے نکل کر ہم ایک قوم بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).