سفید کوٹ بمقابلہ کالے کوٹ


ن لیگ کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگ زیب نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ”آپ اپنی نا اہلی کی وجہ سے قوم کو کتنا رلائیں گے۔ “ ہم نے پچھلے پانچ سال کیا کم رلایا ہے؟ جو باقی کی کمی آپ پوری کر رہے ہیں۔ اور ہم تو پچھلے ماہ بھی قوم کو رلانے کا پروگرام بنا چکے تھے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لہذا لندن جانے کے بعد میاں صاحب کی طبیعت سنبھل گئی۔

اب کچھ بات ہو جائے سانحۂ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی۔ اس پہ کچھ کہنے سے پہلے، ان حقائق کو دیکھتے ہیں، جن کی بنا پر یہ سانحہ رونما ہوا۔

قریباً پندرہ روز پہلے کا واقعہ ہے۔ چار جونئیر وکلاء پی آئی سی میں گئے۔ جہاں معمولی اختلاف پہ، وکلاء رعب جھاڑنے لگے۔ جسے وہاں موجود ڈاکٹرز خاطر میں نہ لائے۔ اور ان نہتے وکلاء کو زدو کوب کیا۔ مضروب وکلاء نے مدد کے لئے اپنے کولیگز کو کال کی۔ بار سے گیارہ وکلاء ان کی مدد کو پہنچے۔ جہاں پی آئی سی کے ہال میں موجود سو سے زائد ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے ان پہ حملہ کر دیا۔ واضح رہے سینئر ڈاکٹرز بجائے معاملے کو رفع دفع کرنے کے، خود حملہ آوروں میں شامل تھے۔ اس پرتشدد واقعے کے بعد، بجائے قانون ہاتھ میں لینے کے، وکلاء کمیونٹی نے انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کافی پس و پیش کے بعد، بالآخر ڈاکٹرز کمیونٹی نے پولیس کے اعلیٰ افسران کی موجودگی میں وکلاء سے معذرت کر لی۔ جسے بار نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کردیا۔

بات یہیں ختم ہوگئی۔ پھر چار دن قبل ایک ویڈیو بار گروپس میں وائرل ہوئی۔ جس میں، وقوعہ میں ملوث ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کا ایک اجتماع منعقد کیا گیا۔ اور عرفان نامی ایک ڈاکٹر، جو صلح کے وقت پولیس آفس میں بھیگی بلی بنا بیٹھا تھا، وکلا پہ کیے گئے تشدد کو اپنی فتح گردان رہا تھا۔ اور وکلاء کمیونٹی کی صلح کو ان کی کمزوری سے تعبیر کر کے حاضرین سے داد وصول رہا تھا۔ ایک سینئر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں کوئی مائی کا لعل بھی ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔

ڈاکٹرز کمیونٹی کی اس تضحیک آمیز ویڈیو کے بعد وکلاء کمیونٹی کو یہ جارحانہ قدم اٹھانا پڑا۔

اس حوالے سے کچھ ذکر میڈیا کا بھی ہوجائے۔ گو کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں، وکلاء نے قانون ہاتھ میں لیا ہے۔

لیکن میڈیا نے بہت سے حقائق کو توڑ مروڑ کے بیان کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ وکلاء نے پرتشدد مظاہرے میں توڑ پھوڑ کی اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ لیکن میڈیا ایسا ایک بھی ڈاکٹر سامنے نہ لا سکا جو وکلاء کے تشدد کا نشانہ بنا ہو۔ چلیں! مان لیتے ہیں، ڈاکٹرز اپنی ازلی بزدلی کی وجہ سے مع سٹاف موقع سے فرار ہوگئے۔ لیکن میڈیا تو ایک مریض بھی ایسا نہ پیش کر سکا جو وکلاء کے تشدد کا نشانہ بنا ہو۔ اور جو مریض یہاں ہلاک ہوئے ہیں۔

ان کی تعداد بھی پہلے درجنوں میں بتائی گئی تھی۔ جو بعد میں بڑھنے کی بجائے، گھٹتے گھٹتے چار پہ آگئی۔ اور امید ہے صبح تک مزید کم ہوجائے گی۔ ویسے بھی یہ دل کے امراض کا ایک بہت بڑا ہسپتال ہے۔ یہاں انتہائی سیریس قسم کے مریض لائے جاتے ہیں۔ اور روزانہ کی بنیاد پہ دو چار مریضوں کی ہلاکت ایک معمولی امر ہے۔ لیکن جب مریضوں کی موت کو میڈیا نے وکلاء کے سر تھوپا۔ تو کیا ان میں سے کوئی ایک بھی مریض ایسا تھا؟ جسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ جب کہ اس وقت وکلاء آتشیں اسلحہ اور ڈنڈوں سے لیس تھے۔

غضے سے بپھرے وکلاء کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ ڈاکٹروں اور چوروں کی طرز پہ، مریضوں کے آکسیجن ماسک اتار کے، ان کو موت کے گھاٹ اتارنے کی؟

حالانکہ وہاں موجود وکلاء کا یہ کردار تھا کہ خواتین وکلاء بھی ببانگ دہل انداز میں پولیس کو للکار رہی تھیں۔ اور گاڑیوں کو نذر آتش کر رہی تھیں۔ ویسے بھی میڈیا اتنا رونا رو رہا ہے اسے مریضوں کی وہ ہلاکتیں کیوں یاد نہیں؟ جو ینگ ڈاکٹرز کے ہڑتال پہ جانے سے ہوتی ہیں۔ لیکن ادھر میں، وکلاء کمیونٹی کے فعل بد کو، ڈاکٹرز کمیونٹی کے فعل قبیح کی آڑ لیتے ہوئے، درست نہیں کہوں گا۔ بہرحال وکلاء کمیونٹی کو ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ ایک مسخرے کو سبق سکھانے کے اور بھی بہت سے طریقے تھے۔ میں اپنی کمیونٹی کے اس جارحانہ اقدام کی مذمت کرتا ہوں۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان پہ ہوئے تشدد کی بھی پرزور قسم کی مذمت کرتا ہوں۔

حالانکہ یہ واحد غریب قسمت شخص ہیں جن کی درگت بننے پہ، پوری قوم مسکراتے ہوئے، ایک پیج پہ جمع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).