کیا علامہ اقبال نے مہاراجہ کشمیر کی کونسل میں شمولیت کی درخواست کی تھی؟


علامہ اقبال برِ صغیر کی سیاسی اور ادبی تاریخ کا ایک اہم کردار ہیں۔ ان کے چاہنے والوں نے اور ان پر تنقید کرنے والوں نے ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ بہت سی بحثیں ہوئی ہیں۔ اس مضمون میں اُن کی زندگی کے صرف ایک مرحلے کے بارے میں حقائق پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

جب 1930 کی دہائی کے آغاز میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور کشمیر کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے لئے جد و جہد شروع ہوئی تو شروع سے علامہ اقبال اس تحریک میں سرگرم تھے اور بعد میں وہ اس کمیٹی کے صدر کے طور بھی کام کرتے رہے۔ جلد ہی بعض اخبارات کی طرف سے اس تحریک کی مخالفت شروع ہو گئی۔ اسی رو میں بعض اخبارات نے یہ لکھنا شروع کیا کہ علامہ اقبال مہاراجہ کشمیر کے مظالم کے خلاف تحریک میں اس لئے حصہ لے رہے ہیں کیونکہ وہ کشمیر ریاست کے وزیر بننے کے خواہشمند تھے۔

علامہ اقبال کے فرزند جاوید اقبال صاحب علامہ اقبال کی سوانح حیات ’زندہ رود‘ میں بیان کرتے ہیں کہ یہ الزام لگانے والوں میں سے ایک اخبار ’کیسری‘ تھا اور اخبار ٹریبیون میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں بغیر کسی کا نام لئے یہ لکھا گیا کہ بعض شخصیتوں کی نیتوں کا حال اس سے واضح ہے کہ کشمیر کی شورش کے دوران برطانوی ہند کے ایک نمایاں لیڈر نے کشمیر کی وزارت کے عہدے کے لئے درخواست دی ہے۔

ایک سے زیادہ موقع پر علامہ اقبال نے اس الزام کی پر زور تردید کی۔ اور کہا کہ وہ ایسے حاکم کی وزارت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اور کہا کہ میں نے تو اس وزارت سے بڑی چیزوں کے لئے بھی کبھی درخواست نہیں کی۔ چونکہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا رکن ہوں جو کشمیر کے نظام میں اصلاحات چاہتی ہے۔ میرے نزدیک کمیٹی کا ممبر ہونے کی حالت میں کوئی ایسی حرکت کرنا دیانت کے خلاف ہے۔

بہر حال اب اس بحث کو نوے برس گزر گئے۔ کہ برٹش لائبریری کی ایک فائل جس کا ریفرنس Mss Eur Photo Eur 209 ہے، دریافت ہوئی ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ موجود تو پہلے بھی تھی، اب منظر ِ عام پر آ رہی ہے۔ اس فائل سے اس بارے میں کچھ تفصیلات معلوم کی جا سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے مہاراجہ کشمیر کی کونسل یا وزارت میں لئے جانے کی خواہش کا اظہار 1931 یا اس کے بعد نہیں بلکہ اس سے چند سال قبل 1925 میں کیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ ستمبر 1925 میں مہاراجہ کشمیر پرتاپ سنگھ کا انتقال ہوا۔ ان کی اپنی اولاد کوئی نہیں تھی۔ اُن کے بعد اُن کے بھتیجے ہری سنگھ صاحب مہاراجہ بنے۔ یہ وہی ہری سنگھ صاحب ہیں جنہوں نے 1947 میں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ اُ س وقت یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ شاید نئے مہاراجہ کشمیر کے لئے نئی کونسل کا اعلان کریں۔ برٹش لائبریری کی اس فائل کے مطابق اکتوبر 1925 کے وسط میں علامہ اقبال نے ایک خط سر جے پی تھامپسن کو لکھا۔ سر جے پی تھامپسن ہندوستان میں اعلیٰ سرکاری افسر تھے۔

جب 1919 میں جلیانوالہ باغ میں فائرنگ ہوئی اور پنجاب میں مارشل لاء لگایا گیا اور حکومت کی طرف سے مظالم کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت یہ صاحب پنجاب حکومت کی چیف سیکریٹری تھے۔ اور بعد میں ہندوستان میں فارن اور پولیٹیکل امور کے انچارج مقرر ہوئے۔ علامہ اقبال کا یہ خط ہاتھ سے لکھا ہوا اور تین صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے آ غاز میں لکھا ہے کہ میں یہ خط اس امید کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ آپ اس وقت جب کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے، میری مدد کریں گے۔

اس سے کچھ عرصہ قبل علامہ اقبال کا نام لاہور ہائی کورٹ کے جج کی اسامی کے لئے بھی زیر ِ غور آیا تھا لیکن غالباً لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شادی لال صاحب کی بے جا مخالفت کی وجہ سے وہ اس منصب پر مقرر نہ ہو سکے۔ اس خط میں پہلے علامہ اقبال نے اس واقعہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ اس تنازعہ سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ اور اصل مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا:

For this reason relying on your large hearted kindness، I come to seek your patronage۔ Could you not secure for me an appointment on the state council of Kashmir؟ You know that Kashmir is the home of my ancestors and I have always felt a longing for that country۔ It is possible that the new Maharajah is contemplating a change in his government۔ If you give me a little push you will be doing me a great good۔

ترجمہ: اس وجہ سے آپ وسیع القلب مہربانی پر انحصار کر کے میں آپ کی سرپرستی کا خواہاں ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ مجھے کشمیر کی سٹیٹ کونسل میں میری تقرری کرا دیں۔ آپ کو علم ہے کہ کشمیر میرے آباء کا ملک ہے اور میں ہمیشہ اس کے لئے تڑپ محسوس کرتا ہوں۔ یہ ممکن ہے نئے مہاراجہ اپنی حکومت میں تبدیلی لانے کا سوچ رہے ہوں۔ اگر آپ میری تھوڑی سی مدد کریں تو اس سے مجھے بہت فائدہ ہو گا۔

22 اکتوبر کو سر تھامپسن نے علامہ اقبال کے خط کا جواب دیا کہ ہندوستان کی حکومت کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ وہ ریاستوں کی کونسلوں میں تقرری میں دخل دے۔ سوائے اس کے کہ جب اُس سے مشورہ مانگا جائے۔ اور میرے علم کے مطابق مہاراجہ اپنی کونسل میں تبدیلی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ پالن پور کے نواب آپ کے اور مہاراجہ کشمیر دونوں کے دوست ہیں۔ اگر آپ ان سے کہہ دیں تو مہاراجہ سے آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ اگر مہاراجہ کشمیر نے میرے سے اس سلسلہ میں بات کی تو آپ کی درخواست پیش ِ نظر رہے گی۔

ظاہر ہے کہ علامہ اقبال کو کشمیر کی سٹیٹ کونسل میں مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے یہ واقعہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام سے پانچ چھ سال پہلے کا ہے۔ اور اس وقت کا نہیں ہے جب مہاراجہ کشمیر کے مظالم کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ اور اس درخواست سے علامہ اقبال کے ادبی اور سیاسی مقام پر کوئی حرف نہیں ہو۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اگر علامہ اقبال کی طرح کی کوئی نمایاں شخصیت کشمیر کی کونسل میں مقرر ہو جاتی تو یہ تقرری کشمیر کے پستے ہوئے مسلمان عوام کی مدد کا باعث بنتی۔

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے علامہ اقبال کو سر کا خطاب 1923 کے آغاز میں ملا تھا۔ اور اُس وقت تحریک ِ خلافت ابھی جاری تھی۔ اور اس سلسلہ میں عام مسلمانوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ کئی مسلمان اور ہندو اپنے خطابات اور تمغے واپس کر رہے تھے۔ اور جیسا کہ جاوید اقبال صاحب نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے جب علامہ اقبال نے یہ خطاب قبول کیا اور اس سلسلہ میں تقریب میں جو تقریب ہوئی وہ گورنر کی صدارت میں ہوئی۔ اس سے نہ صرف ہندوؤں میں بلکہ مسلمانوں میں بھی علامہ اقبال نے مخالفت زور پکڑ گئی تھی۔ اور عبد المجید سالک کے یہ اشعار اخبار زمیندار میں شائع ہوئے تھے۔

پہلے تو سر ملّت بیضاء کے وہ تھے تاج

اب اور سنو تاج کے سر ہو گئے اقبال

پہلے تو مسلمانوں کے سر ہوتے تھے اکثر

تنگ آکے اب انگریز کے سر ہو گئے اقبال

عبدالمجید سالک تو عمر اور مرتبے میں اقبال کے خوردوں میں شمار ہوتےتھے، اقبال کے ہم عصر مولانا ظفر علی خان نے  فروری 1928ء میں اقبال کو رجعت پسند، آزادی کا مخالف اور قوم کی لٹیا ڈبونے والا قرار دیتے ہوئے یہ زہر ناک اشعار کہے تھے:

مانگ کر اغیار سے رجعت پسندی کی کدال

قبر آزادی کی کھودی کس نے، سر اقبال نے

کہہ رہے تھے ڈاکٹر عالم یہ افضل حق سے

قوم کی لٹیا ڈبو دی کس نے، سر اقبال نے

انہی دنوں مسجد وزیر خان کے خطیب دیدار علی صاحب نے علامہ اقبال کے کفر کا فتویٰ بھی جاری کر دیا تھا اور مسلمانوں کو تلقین کی تھی کہ وہ ان سے میل جول نہ رکھیں۔ رائے کچھ بھی ہو۔ صحیح تاریخی حقائق کا علم ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).