الزامات کی سیاست اورقومی تقاضے


پاکستان کی مجموعی سیاست الزامات کے گرد گھومتی ہے۔ الزامات حقیقت پر مبنی ہوں یا اس میں مصنوعی انداز سے رنگ بھرے گئے ہوں ایسے لگتا ہے کہ اس ملک کا بنیادی مسئلہ الزامات پر مبنی سیاست ہے۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف کی سیاست یا اہل دانش کی مجالس ہوں یا میڈیا پر جاری بحث ومباحثہ سب کا مسئلہ دوسروں پر الزامات عائد کرکے خود کو بچانا ہوتا ہے۔ یہ ہمارا قومی مزاج بنتا جارہا ہے کہ ہم اپنی داخلی غلطیوں کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

اوپر سے لے کر نیچے تک اور ہرطبقہ میں اس جاری سیاست کے بدنما کھیل نے ہمیں قومی سطح پر لاتعداد مسائل کا شکار کردیا ہے۔ ایک طرف ہم سیاسی اور معاشی استحکام کی جنگ لڑکر سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہمارا طرز عمل اس جنگ کو جیتنے سے بالکل مختلف ہے۔ یہ ہی ایک وجہ ہمیں پیچھے کی طرف لے جانے کا سبب بھی بنتی ہے۔

دنیا کے مہذہب معاشروں میں الزامات کی سیاست جب ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ سچ اور جھوٹ کی صورت میں کسی کے حق اور مخالفت میں نکل کر سچائی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں سب فریقین ”الزامات کی سیاست“ کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف عملا ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ رائے عامہ کی سطح پر لوگوں کو تقسیم کیا جاتا ہے اور وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ کی سیاست کررہا ہے۔ الزامات کی سیاست محض کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار تک محدود نہیں بلکہ اس میں بدقسمتی سے ہمیں اب ذاتیات کی سیاست کا بھی غلبہ نظر آتا ہے۔ کردار کشی اور تضحیک کے پہلو وں کا نمایاں ہونا ظاہرکرتا ہے کہ قومی سیاست میں خود اخلاقیات کی سیاست زوال پزیری کا شکار ہے۔

عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ حکومت خود کو ایسے بحران سے دور رکھتی ہے جو انتشار کی سیاست کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حزب اختلاف کو اس انداز سے ساتھ لے کر چلے کہ اس کی حکومت کسی بڑے بحران کا شکار ہے۔ لیکن یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ حکومت کا اپنا مجموعی رویہ بھی سیاسی مخالفین کے خلاف الزامات کی سیاست سے جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ حکومت کے وزرا اور مشیر حزب اختلاف کے بارے میں جو لب ولہجہ اختیار کرتے ہیں اس کا ردعمل ہمیں حزب اختلاف میں اور حزب اختلاف کا مجموعی رویہ کا ردعمل حکومت کی سطح پر منفی انداز میں غالب نظر آتا ہے۔

ایک ایسے موقع پر جب ملک نازک حالات کا شکار ہے۔ سیاست سمیت معیشت کے معاملات پر لوگوں میں خاصی مایوسی اور بداعتماد ی نظر آتی ہے۔ ایسے میں حکومت کا دعوی تھا کہ وہ نئے پاکستان کے ساتھ لوگوں کی بڑی توقعات جو خود انہوں نے ہی پیدا کی تھیں مکمل کرکے اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کریں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم سمیت حکومت خود بحران کا اعتراف کرتی ہے اور اس کے بقول عام آدمی کی سیاست میں وہ کچھ نہیں ہوسکا جو ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ان پندرہ ماہ کی حکومت میں بظاہر ایسے نظر آتا ہے کہ جہاں حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج حکمرانی اور عوامی توقعات کے بحران کی صورت میں ہے تو دوسری طرف الزامات پر مبنی سیاست سے اس کا اپنا سیاسی اور معاشی ایجنڈا اس کے نتیجہ میں بہتر نتائج بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

اس وقت بڑا بحران حکومت اور حزب اختلاف کی سیاست میں ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی اور بھروسا کی سیاست کے نہ ہونے کا ہے اور ا س کی وجہ سے دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے دست وگریبان نظر آتے ہیں۔ زیادہ سیاسی محاذ پر سیاست اور معیشت کی بہتری پیدا کرنے کے مقابلے میں حکومت کو گرانے کا ایجنڈا سرفہرست ہے۔ مائنس ون فارمولہ، نئے انتخابات، ان ہاؤس تبدیلی اور ایک دوسرے کے وجود کو قبول نہ کرنے یا حکومت گرانے کی سیاست کا ایجنڈا سرفہرست ہے۔ حزب اختلاف کی ساری سیاست ان ہی تین نکات کے گرد گھومتی ہے۔ جبکہ حکومت کا نکتہ احتساب اور کرپٹ لوگوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت اور سیاسی نظام کے خلاف حزب اختلاف کا گٹھ جوڑ احتساب سے بچنے کی سیاست کا عمل ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ سیاست میں جو الزامات سنگین نوعیت کے ایک دوسرے پر لگائے جارہے ہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون سچ ہے اور کون جھوٹ۔ ایک منطق تو یہ ہے کہ الزامات لگانے والے معاملات کو عدالتوں میں لے کر جائیں اوروہاں ثابت کریں کہ ان کا موقف درست ہے۔ لیکن یہاں دو بڑے تضادات یا مسائل نمایاں ہیں۔ اول اگر معاملات عدالتوں تک بھی پہنچے ہیں تو یہ معاملہ اس حد تک سست روی کا شکار ہے یا اس میں ایسی قانونی پیچیدگیا ں یا رکاوٹیں ہیں کہ جلدی نتائج ملنے کے امکانات بہت محدود ہوتے ہیں۔

اگر کچھ فیصلے ان عدالتوں سے کسی کے خلاف آتے بھی ہیں تو ان فیصلوں کو ماننے کی بجائے عدالتی فیصلوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور الزام لگایا جاتا ہے کہ عدالتی فیصلوں میں سازش کا عنصر شامل ہے۔ دوئم ہم معاملات کو عدالتوں تک لے کر جانے کی بجائے یہ سب کچھ سیاسی محاذ پر جلسوں، جلوس، سیاسی نعروں اور ٹی وی ٹاک شوز میں لے جاکر معاملات میں اور زیادہ سیاسی محاز آرائی پیدا کرتے ہیں۔

ہمارے اہل سیاست اور سیاسی جماعتوں کی قیادت چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں اس بنیادی نکتہ کو نظر انداز کررہے ہیں کہ ان کا لب ولہجہ ملکی مسائل کو حل کرنے کی بجائے اسے اور زیادہ بگاڑ رہا ہے۔ سیاسی جلسوں کی زبان لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور اشتعال کی سیاست پیدا کرتی ہیں اور ہم رواداری اور برداشت کی سیاست کو پیچھے چھوڑ کر ایک دوسرے کی حب الوطنی کو بھی چیلنج کرکے ان کو ملک دشمن ثابت کررہے ہیں۔ سیاسی اور معاشی استحکام، اداروں کی شفافیت، عام آدمی کی سیاست کے مفادات، علاقائی اور خارجی سیاست سے جڑے مسائل ہماری ترجیحات میں بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ بعض اوقات کو ایسے لگتا ہے کہ ہم اصل میں خود ہی اپنے دشمن ہیں اور ہمیں کسی بڑے دشمن کی ضرورت نہیں۔

الزامات پر مبنی سیاست اس وقت ہی طاقت پکڑتی ہے جب ہم اپنے مسائل کی درست انداز میں ترجیحات کا تعین نہیں کرتے اور ایشوز کی بنیاد پر سیاست کرنے کی بجائے ایسے معاملات پر توجہ دیتے ہیں جو غیر سنجیدہ سیاست کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ یہ کام محض سیاست اور سیاست دانوں تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ اہل دانش اور رائے عامہ بنانے والے ادارے سمیت میڈیا بھی نان ایشوز کی سیاست کا شکا رہوکر ملک کے استحکام کو بہت پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔

ملک میں قانون سازی، پارلیمنٹ کو چلانے کا انداز، آرڈیننس کا طریقہ کار، وزیر اعظم اور اہم لوگوں کی پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے کی سیاست پہلے سے موجود مسائل کو اور مسائل کا شکار کرتے ہیں۔ جب تک ہم الزامات لگانے والے لوگوں کو جوابدہ نہیں بنائیں گے یعنی جو لوگ الزامات لگاتے ہیں ثابت نہ ہونے کی صورت میں ان کی جوابدہی کو ممکن بنا کر ہی ہم اس موذی مرض کا علاج تلاش کرسکتے ہیں۔

یہ جو قومی سطح پر ہماری سیاست، جمہوریت اور سیاست دانوں کا مقدمہ کمزور ہے اس کی ایک بڑی وجہ الزامات کی سیاست سے لوگوں کی بڑی بددلی ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ہماری سیاست کا قومی مزاج ہے اور یہ سیاست اپنے اندر اصلاحات یا خود کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس وقت جمہوری سیاست کو مستحکم کرنے کی بحث سے خود کو علیحدہ رکھتی ہے۔ ان کے بقول سیاست کا مطلب طاقت کی سیاست ہے اور اس طاقت سے اپنے ذاتی مفادات کو تقویت پہنچانا ہے۔ لوگوں سے پوچھیں یا خود بھی ہم اس کا تجزیہ کریں تو جو مسائل سیاست دان الزامات کی صورت میں اٹھاتے ہیں اس کا عام آدمی کی زندگی سے کیا براہ راست تعلق بنتا ہے یاس اس سے کیا فائد ہ ہوسکتا ہے۔

اس وقت ہمیں حقیقی معنوں میں اپنی قومی سیاست کے موجودہ تقاضوں کے خلاف ایک مضبوط بندھ باندھنا ہے۔ جو لوگ بھی الزامات کی سیاست کا کارڈ ایک دوسرے کے خلاف کھیل رہے ہیں ان کو کسی نہ کسی شکل میں ریاست کے سامنے جوابدہ بنانا ہوگا۔ موجودہ سیاست میں اس وقت ایک بڑی تبدیلی درکار رہے۔ یہ تبدیلی معمولی نوعیت کی نہیں بلکہ غیر معمولی صورت میں ہونی چاہیے۔ یعنی ہمیں اپنے سیاسی نظام کی درستگی میں ایک بڑ ی سرجری درکار ہے۔ سیاست کا بہتر علاج میٹھی گولیوں سے نہیں بلکہ کڑوی گولیوں سے ہوگا اور اس کے لیے ہمیں ایک بڑی جنگ لڑنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).