ہواٶں کا رخ اور سہمے ہوئے شہروں کی فضا


نئے پاکستان کے نقشہ نویس، انجینئرز، معمار اور کارکنان پہلے نہایت پر جوش اور ولولہ انگیز تھے۔ دشمن کو ووٹ کی طاقت سے شکست دے کر خاکی جمہوریت نے نعرہٕ مستانہ بلند کیا کہ وتعز من تشا وتذل من تشا۔ پھر ایک پیج کا تحفہ اور ڈھیر ساری ضمانتیں لے کر نئی نویلی حکومت نئے پاکستان کی تعمیر کے سفر پر چل پڑی۔ آغاز سفر میں سرپرستوں کا سایہ، فطری جوش و خروش، اقتدار کا نشہ، کرسی کی سرشاری، اختیارات کا خمار اور عہدوں و مناصب کی وارفتگی نے فرائض منصبی کے تقاضوں سے یکسر غافل رکھا مگر جب پہلی محبت کے خمار کی طرح اقتدار کا نشہ اترنے لگا تو وزیر اعظم سمیت ”بظاہر“ ساری حکو مت کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔

بڑے عہدوں پر بیٹھے چھوٹے لوگ احتساب کے نام پر نواز فیملی اور ن لیگ سے انتقام میں اس قدر جتے رہے کہ پانی سر سے گزرنے کا نازک مرحلہ آن پہنچا۔ سیاست، معیشت، صحافت، عدالت، صنعت، زراعت، تعلیم، تعمیرات سمیت تمام اداروں کو غیر فطری اور بے ڈھنگے پن سے زیر دام لانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر چیز بے قابو ہوتی چلی گئی۔ اب حالات یہ ہیں کہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پاٶں رکاب میں ہیں۔ حتٰی کہ سرپرستوں کے اپنے حالات بہت ڈانوا ڈول ہو گئے ہیں۔ آرمی چیف خود ایڈہاک پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی توسیع پارلیمان کے رحم و کرم پر ہے۔ گذشتہ دنوں سات گھنٹے طویل اعلیٰ سطحی کانفرنس کے دوران الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کی کاوشیں ہوئیں ۔

ایک پیج والی حکومت نے سوچا تھا کہ مخالفین کو دھڑا دھڑ جیلوں میں ڈالنے سے ان کا کام آسان ہو جائے گا اور وہ یکسوئی سے پانچ سال پورے کر لیں گے۔ مگر واہ ری قسمت! یہ ہتھکنڈہ تو الٹا گلے پڑ گیا۔ ایک تو مخالفین بڑے سخت جان اور لوہے کے چنے ثابت ہوئے جس کی وجہ سے عوامی ہمدردی کی توانا لہر ان کے حق میں چلنے لگی۔ دوسرا این آر او نہ دینے کی رٹ لگانے والے اس وقت اپنا سا منہ لے کر رہ گئے جب دو طاقتور سیاسی حریفوں کو خود ملک سے باہر بھیجنا پڑا۔

ادھر نیب والی سرکار نے بھی ہواٶں کے رخ کی تبدیلی کا اشارہ دے دیا اور سرپرست بھی اپنے مرغ دست آموز کی کارکردگی پر پہلے حیران، پھر پریشان اور اب پشیمان سے لگتے ہیں۔ پنجاب میں وسیم اکرم پلس اور شیر شاہ سوری ثانی نے بد انتظامی اور نا اہلی کی انتہا کردی ہے۔ سرپرست بارہا وزیر اعظم کو اس طرف متوجہ کر چکے ہیں مگر بنی گالہ کی روحانی طاقتوں کا استخارہ ہمیشہ کام خراب کر دیتا ہے۔ چئیر مین نیب نے تو صرف ہوا کے رخ کے بدلنے کی بات کی تھی مگر سنا ہے کہ نئے پاکستان کے آر کیٹیکٹ مرکز اور پنجاب میں انقلاب آفریں تبدیلیوں کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔

کچھ لو اور دو کے اصول پر بات چیت جاری ہے چودھری پرویز الٰہی اور شہباز شریف کے ناپ کی شیر وانیاں سلنے والی ہیں اور کچھ اہم افراد پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ بنی گالہ کی روحانی طاقتوں نے اپنی کرامات کی ناکامی کے بعد روزانہ کئی کالے بکروں کا صدقہ دینا شروع کر دیا ہے۔ وہ بہر صورت پنڈی والے مہا دیو کو قابو کر نا چاہتی ہیں مگر یہ کام ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا ہے جو جادو کی چھڑی گھمانے سے تو ہونے سے رہا۔

روحانیات کو سپر سائنس بنانے والے پی ایم صاحب بھی آج کل جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کر تے پائے جاتے ہیں۔ فیض آباد تا بنی گالہ کے راستے میں آنے والے درختوں پر نیلے پیلے، لال ہر ی جھنڈیاں لہرا رہی ہیں۔ آسمان سے ہر رات ستارے ٹوٹ کر گرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ چیز موجودہ انتظام کے لیے بہت بڑی بد شگونی ہے۔ شہروں کی فضا سہمی ہوئی ہے۔ ہر طرف پراسرار اور جادوئی فضا طاری ہے۔ عجیب و غریب اور دل دہلا دینے والی آوازوں نے اسلام آباد اور پنڈی والوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ لگتا ہے کہ بہت جلد بہت کچھ ہونے والا ہے۔ وکلا اور ڈاکٹروں جیسے مصنوعی ہنگامے اب ہونی کو ٹالنے میں بری طرح ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اداسی کی تہذیب کے شاعر ناصر کاظمی اس صورت حال کے بارے میں کیا کہہ گئے ہیں

ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے

کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے

یہ ٹھٹھرتی ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں

یہ خامشی آواز نما کچھ کہتی ہے

جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں

کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا کچھ کہتی ہے

ناصر آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو

کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).