ڈاکٹر، بیرسٹر، گورنمنٹ ملازم یا استاد ہونے سے پہلے ہم انسان ہیں


تعلیم کو ہم نے بنیادی ضرورتوں میں شامل کر رکھا ہے، جہاں کہیں تعلیم کے لئے کوئی بہتر انتظامات نہیں ہوتے تو ہم حکومت کو اور دیگر اداروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں کوئٹہ کے ایک سکول کی حالت زار دیکھنے کو ملی جہاں شدید سردی میں بچے زمیں پر بیٹھے پڑھتے دکھائی دیے۔

اور اس خبر کو ڈھیروں نشر کیا گیا۔ لیکن ٹھہریے۔

یہاں یہ سب بتانا حکومت سے تعلیم کے لئے اچھے انتظامات کے لیے نہیں۔ کیونکہ دیکھا جائے تو حالیہ گورنمنٹ سکول پہلے سے بہت بہتر حالت میں ہیں۔

آپ کسی گورنمنٹ سکول میں چلے جائیں تو آپ کو پہلے کی نسبت بہت بہتری دیکھنے کو ملے گی۔ حکومت سکولز کو سامان و دیگر چیزیں ہمیشہ سے مہیا کرتی آئی ہے لیکن کیا ان کو درست سمت میں استعمال کیا گیا؟

نہیں!

اب آتے ہیں مدعے کی طرف۔

ہمارے ملک میں تعلیم کو بنیادی ضرورت تو سمجھ لیا گیا ہے لیکن اسے کبھی بھی اصلاح اور شعور کے زمرے میں نہیں لایا گیا۔

ہم سب نے ایک کامیاب انسان کی لائف سائیکل کو اس طرح ترتیب دے رکھا ہے کہ پیدا ہونے کے بعد سے جب وہ اس عمر کو پہنچتا ہے، کہ اس کے سکول جانے کا وقت ہوجاتا ہے۔ تو

اس کو یہ شروع سے ہی باور کرادیا جاتا ہے کہ اچھے نمبر لوگے تو اچھے کالج جاؤ گے، اچھے کالج جاؤ گے تو اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ممکن ہوگا۔ اور یہاں اس کی ڈگری مکمل ہوئی یا فرض کریں یہاں اسنے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کیا۔ تو اس کے کانوں میں ڈالا جاتا ہے کہ پکی نوکری ملے گی تو اچھا رشتہ ملے گا۔ بس! ؟

یہیں ہیں ہمارے نصب العین اور یہی ہیں ہمارے مقاصد؟

اور بالفرض کسی کو پکی نوکری مل گئی۔ خواہ وہ پولیس کی ہو، کوئی اور ادارہ ہو، شعبہ درس و تدریس کی ہو، واپڈا کی ہو۔ خواہ کچھ بھی ہو۔

تو یہاں ڈیوٹی شروع ہوجاتی ہے ہماری خواتین کی۔ وہ بیٹے کی پکی نوکری ہاتھوں میں لیے یوں گھومتی ہیں جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ ہو جو ان کے ان کے بیٹے نے کر رکھا ہو۔

یوں ادھر ادھر ان کی تلاش شروع ہو جاتی ہے ایک ایسی دوشیزہ کی جو ڈھیروں سامان جہیز کی صورت اس پکی نوکری کے عوض ان کے لئے لے آئے۔

خواہ اس سے پہلے لڑکے والوں نے فریج کی صورت تک نہ دیکھی ہو لیکن ان کی ڈیمانڈ میں اب فریج سے ایل سی ڈی اور ایل سی ڈی سے سی ڈی سیو نٹی شامل ہو جاتی ہے۔

اور یہ بالکل سچ بھی ہے۔ ہم نے بہت سے گھرانے دیکھے ہیں جو ضرورت کی چیزیں جیسے کہ واشنگ مشین اور فریج اس لیے نہیں خریدتے کہ بہو لائے گی۔ اور پھر وہی مرد اور خواتین جہیز کے سامان پہ اتراتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

اب آتے ہیں ہمارے پڑھے لکھے ڈگری شدہ نوجوانوں کی طرف۔

کسی روبوٹ کی طرح ہر غلط کو صحیح گرداننے والے یہ بے چارے بچپن سے سبق ”سکول، کالج، پکی نوکری اور پھر شادی“ کو ذہن نشین کر کے اس طرح بیٹھ جاتے کہ جب کہیں انھیں پکی نوکری مل ہی جاتی ہے تو کسی سلطنت کے راجہ کی طرح سب سے پہلے تو یہ شادی کی سنت کو پورا کرتے نظر آتے ہیں (جو درحقیقت ایک پاکیزہ و نہایت سادہ فریضہ ہے اور ایسے ہی ادا کرنا چاہیے ) ۔

انکو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کے والدین شادی کے نام پر کس قدر ڈیمانڈ اور دکھاوا کیے جا رہے ہیں، اور لڑکی والے بھی ایک پکی نوکرے والے کو یوں سمجھ کر قبولتے ہیں جیسے انھیں قارون کا خزانہ ہی مل گیا ہو۔ لہذا اس نئے جوڑے کو بجائے اصلاح، شعور اور سادہ طرز زندگی کے بجائے پتہ نہیں کن ترجیحات کی طرف گامزن کر دیا جاتا ہے۔

خیر شادی کا یہ مرحلہ بھی مکمل ہوتا ہے تو بات آگے بڑھتی ہے۔ نوجوانوں کی ان ذمہ داریوں کی طرف جو انھوں نے جاب کر کے پوری کرنا ہوتی ہیں۔

ہمارے اپنے ہی لوگ ان کو ”پکا ملازم پکا ملازم“ کہہ کہہ کر اس قدر سر چڑھا چکے ہوتے ہیں کہ یہ ذمہ داری اب ان کو ایک قسم کی اتھارٹی لگنے لگتی ہے۔

وہ بظاہر تو روزگار کے لئے جاب کرتے نظر آتے ہیں لیکن اداروں کو ایک الگ ہی طرز میں تولنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیسے؟

آئیے دیکھتے ہیں۔

▪️پولیس والے کا ambition لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے بجائے ان کو ڈرانے اور دھمکانے کا ہوجاتا ہے۔

▪️وکیل جنھیں سفیر قانون کہا جاتا ہے انھیں لگتا ہے کہ قانون کو ہاتھوں میں لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

▪️ ڈاکٹرز جن کو ہم مسیحا کہتے ہیں عوام میں الگ دھونس جمانے اور مہنگے علاج کے پاٹ پڑھتے ہوئے گورنمنٹ اور پرائیوٹ دونوں طرف سے نوٹ چھاپنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔

اور بھی بہت سے شعبے ہیں جو ڈگری اور پکی نوکری کی آڑ میں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ملک اور اداروں کے ساتھ کسی طرح کا بھی کھیلواڑ کر سکتے ہیں۔

یہ سب لکھنے کی وجہ وکلا اور ڈاکٹروں کی کل کی وہ ساری حرکات و احتجاج ہیں جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ؛

▪️ کیا ڈگری یا نوکری ہمیں یہ سب کرنے کی اجازت دیتی ہے؟

▪️ کیا ڈگری ہم صرف دھونس جمانے کے لیے لیتے ہیں؟

▪️ کیا وہ ہمیں اتنے اختیار دے دیتی ہے کہ ہم کسی بھی ادارے میں دندناتے ہوئے اپنے غیر انسانی ہونے کا ثبوت دیں؟

نہیں۔ ہرگز نہیں!

میری نظر میں وہ سب ان پڑھ اور ایسے ہی گونگے بہرے لُولے لنگڑے ہیں جو نہ تو سننے کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ کچھ اچھا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں!

تعلیم، ڈگری اور نوکری کو جو ہم نے سمجھ لیا ہے وہی سوچ ہمیں لے کر ڈوب رہی ہے۔

تعلیم ذریعہ معاش کے لیے معاون تو ہوسکتی ہے لیکن اس کا بنیادی مقصد اصلاح اور صحیح غلط میں تفریق کرنا ہے۔

اس تکبر میں کہ ہم ڈاکٹر ہیں، بیرسٹر ہیں، گورنمنٹ ملازم ہیں یا استاد ہیں یہ مت بھول جائیں کہ اس سے پہلے ہم انسان بھی ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).